سید اطہر علی ہاشمی بھی غریقِ رحمت ہوئے

1038

 محترم اطہر علی ہاشمی صاحب سے میری کبھی ملاقات تو نہیں ہوئی لیکن میں ان کی شخصیت کے متعلق جو کچھ بھی معلومات رکھتا تھا وہ سب کی سب میرے لیے بہت متاثر کن تھیں۔ ایک حسرت تھی کہ میں ان سے شرف ملاقات حاصل کروں لیکن اب یہ حسرت ہمیشہ کی حسرت ہی رہ گئی۔ کالج کی زندگی سے فارغ ہو کر غمِ روز گار میں ایسا گرفتار ہوا کہ جو کچھ تھوڑا بہت لکھنا آتا تھا وہ سب کچھ جیسے بھول کر ہی رہ گیا یوں نجانے کتنے ہم عصر شعرا اور لکھاریوں سے برس ہا برس کی دوریاں ہوتی چلی گئیں یہاں تک کہ فاصلوں کا گرد وغبار شناساؤں کے چہروں کو بھی اتنا دھندلا گیا کہ اکثر کے چہرے تک یاد نہیں رہے۔ اپنی ملازمت کی مدت پوری کرنے کے بعد طبیعت دوبارہ لکھنے لکھانے کی جانب مائل ہوئی تو ماہنامہ بتول، اردو ڈائجسٹ اور سر گزشت ڈائجسٹ میں کہانیاں افسانے اور مضامین ارسال کرنے کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا جو گزشتہ کئی برس سے جاری ہے۔ جسارت میں تین چار برس سے ’’صریرِ خامہ‘‘ کے عنوان کے تحت اکثر کالم شائع ہو جایا کرتے ہیں۔ جس کے لیے میں جسارت کا ممنون و مشکور ہوں۔
اطہر علی ہاشمی صاحب کے انتقال کی خبر سن کر بہت صدمہ ہوا۔ نجانے سال 2020، جس کے متعلق اعلیٰ سطح پر یہ کہا جا رہا تھا کہ یہ خوشخبریوں کا سال ہوگا، نہایت افسوس ناک خبریں لیے ہوئے کیوں گزر رہا ہے۔ پورا پاکستان بحران در بحران کا شکار ہے اور پاکستان سمیت پوری دنیا کوویڈ 19 کی وبا میں گرفتار ہو کر رہ گئی ہے۔ اس سال کئی ایسے چہرے اور شخصیات جن کو کسی صورت بھلایا ہی نہیں جا سکتا، وہ پیوندِ خاک ہو چکی ہیں جن میں صرف اطہر علی ہاشمی ہی نہیں، سید منور حسن جیسی خوبصورت و خوب سیرت شخصیت بھی شامل ہے۔ اللہ ان تمام نیک بندوں کو جنت میں اعلیٰ و ارفع مقام عطا کرے (آمین)۔
عظیم اور ہر دل عزیز انسان کی ایک پہچان یہ بھی ہوتی ہے کہ اس کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد صرف اس کے اپنے ہی یاد نہیں کر رہے ہوتے بلکہ وہ پوری دنیا کے دل افسردہ اور آنکھیں پْرنم ہو جایا کرتی ہیں۔ جسارت اخبار کے چیف ایڈیٹر اطہر علی ہاشمی کے لیے اتنے اداروں اور شخصیات نے اپنے نیک جذبات اور خیالات کا اظہار کیا ہے ان سب کی ساری عقیدتوں کو اگر تھوڑا تھوڑا بھی ضبطِ تحریر میں لایا جائے تو ایک طویل مضمون کی شکل اختیار کر جائے۔ میں نے ہاشمی صاحب کے بارے میں چند اداروں اور شخصیات کے کچھ تراشے انٹر نیٹ سے حاصل کیے ہیں جن کو میں ذیل میں درج کرنا چاہتا ہوں جس سے لوگوں اور اداروں کی ہاشمی صاحب سے قربت، لگاؤ، احترام، عقیدت اور محبت کا اظہار ہوتا ہے۔ ان سب نے نہ صرف ہاشمی صاحب کی خدمات، ان کی قابلیت اور ان کی شخصیت کو سراہا اور اجاگر کیا ہے بلکہ جس عزت و احترام کا مقام ان کو دیا ہے، واقعی وہ اس کے لائق تھے۔
جسارت اخبار میں ’’بادنما‘‘ کے تحت کالم لکھنے والے ’’محمد انور‘‘ رقم طراز ہیں کہ ’’محترم اطہر علی ہاشمی بھی ہم سب کو روتا چھوڑ گئے۔ میری ان سے آخری گفتگو 2 اگست کی رات دس بجکر 50 منٹ پر، 13 منٹ 19 سکینڈ کی ہوئی۔ ہاشمی صاحب میرے لیے ایک ایسے رہنما تھے جو مجھے ہمیشہ اردو کے الفاظ، تلفظ اور ان کی ادائیگی کا طریقہ بتاتے رہتے تھے۔ بات کوئی بھی ہورہی ہو وہ میری غلطیوں کی اصلاح فوری کیا کرتے تھے اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ وہ اردو سے محبت نہیں عشق کیا کرتے تھے۔ اردو کے غلط العام الفاظ کو درست کرنے کے لیے وہ ہفت روزہ فرائڈے اسپیشل میں ’’خبر لیجیے زباں بگڑی‘‘ کے عنوان سے مسلسل کالم لکھا کرتے تھے۔ جبکہ روزنامہ جسارت میں بھی وہ ’’بین السطور‘‘ کے عنوان سے کالم لکھا کرتے تھے۔ ان کی تحریریں قارئین میں بہت مقبول تھیں‘‘۔
جسارت اخبار نے کچھ اس طرح رپورٹ کی ہے کہ ’’صحافت میں اطہر ہاشمی ایک استاد کی حیثیت رکھتے تھے، ان کی عمر کا بہت بڑا حصہ اسی پیشے سے جڑا رہا، وہ آخری دم تک صحافت کے میدان میں رہے اور ملک میں ان کے کئی شاگرد پھیلے ہوئے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار اسپورٹس سے وابستہ شخصیات نے اطہر ہاشمی کے انتقال پر تعزیت کرتے ہوئے کیا۔ ان میں کراچی سٹی کرکٹ ایسوسی ایشن کے سابق صدر پروفیسر سید سراج الاسلام بخاری، کے سی سی اے زون ایک کے سابق سیکرٹری منیر علی قادری، کراچی امپائرز ایسوسی ایشن کے جوائنٹ سیکرٹری جنید غفور، پاکستان اسپورٹس رائٹرز فیڈریشن کے سیکرٹری امجد عزیز ملک، گوادر کرکٹ کلب کے سابق صدر حاجی محمد حنیف اور پاکستان ڈس ایبلڈ کرکٹ ٹیم کے میڈیا مینیجر نظام الدین شامل ہیں‘‘۔
جیو نیوز نے خبر نشر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’اردو سمیت مختلف زبانوں پر عبور رکھنے والے سینئر صحافی اور روزنامہ جسارت کے چیف ایڈیٹر اطہر علی ہاشمی آج اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ 74 برس کی عمر میں انتقال کرنے والے اطہر علی ہاشمی طویل عرصے سے عارضہ قلب سمیت دیگر امراض میں مبتلا تھے۔ اطہر علی ہاشمی روزنامہ جسارت کے چیف ایڈیٹر تھے۔ انہوں نے زندگی کے 44 برس شعبہ صحافت میں صرف کیے۔ ان کی نہ صرف اردو زبان بلکہ عربی، فارسی، ہندی اور سنسکرت پر مضبوط گرفت تھی۔ زبان کی اصلاح کے حوالے سے ان کا ہفتہ وار کالم ’’خبر لیجیے زباں بگڑی‘‘ کے عنوان سے انتہائی مقبول تھا۔ وہ جدہ سے شائع ہونے والے پہلے اردو اخبار ’’اردو نیوز‘‘ کے بانیوں میں شامل تھے‘‘۔
روز نامہ جنگ لکھتا ہے ’’روزنامہ ’جسارت‘ کے ایڈیٹر انچیف سید اطہر علی ہاشمی کراچی میں 74 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ اطہر علی ہاشمی نے ’علا الدین خلجی کی معاشی پالیسی‘ پر مقالہ لکھ کر ایم فل کی ڈگری حاصل کی تھی‘‘۔
آزاد دائرۃ المعارف ویکی پیڈیا نے لکھا ہے کہ ’’سید اطہر علی ہاشمی پاکستان کے مایہ ناز صحافی و مصنف روزنامہ جسارت کے ایڈیٹر انچیف تھے۔ وہ 1946کو پیدا ہوئے، ایف سی کالج لاہور اور جامعہ کراچی میں تعلیم مکمل کی، اطہر علی ہاشمی نے ’’علا الدین خلجی کی معاشی پالیسی‘‘ پر مقالہ لکھ کر ایم فل کی ڈگری حاصل کی تھی۔ ’’خبر لیجیے زباں بگڑی‘‘ کے نام سے جسارت بلاگ بنا رکھا تھا جو اپنے انداز بیان کے اعتبار سے پر مغز ہوتا تھا۔ وہ روزنامہ جنگ لندن سے بھی وابستہ رہے اور روزنامہ امت کے ڈپٹی ایڈیٹر انچیف بھی رہے۔ وہ مختلف اخبارات و میگزین میں لکھتے بھی تھے۔ اردو نیوز جدہ کے بانیوں میں سے تھے، آپ کے فرزند حماد علی ہاشمی بھی شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں‘‘۔
اردو نیوز، اب تک، روزنامہ 92 کے علاوہ پاکستان کی بہت ساری سیاسی و مذہبی پارٹیوں اور تنظیموں کی جانب سے بھی نہ صرف تعزیت اور اظہار افسوس کیا گیا بلکہ ان کی شخصیات کے بہت سارے پہلوؤں کو اجاگر بھی کیا گیا۔ ان کی زندگی کا ایک سنہری پہلو یہ بھی ہے کہ وہ جامعہ دارالعلوم کراچی کے ناظمِ تعلیمات اور استاذِ حدیث مولانا راحت علی ہاشمی مدظلہ کے بڑے بھائی بھی تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کو جنت میں اعلیٰ مقام عطا کرے اور ان کے لوحقین کو صبر جمیل کی توفیق دے (آمین)۔
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے