ایک اور انقلاب کا اسقاط؟

500

 سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو مسلم لیگ ن میں عقابی سوچ کا نمائندہ سمجھا جاتا ہے۔ ہر جماعت کی طرح مسلم لیگ ن میں بھی عقاب اور فاختائیں موجود ہیں۔ عقاب سخت گیر سوچ کے حامل جبکہ فاختائیں معتدل سوچ کی نمائندگی کرتی ہیں۔ مسلم لیگ ن کا خمیر مجموعی طور فاختائی سوچ کی مٹی سے اُٹھا ہے۔ وقت کے ساتھ آگے چل کر اس جماعت میں عقابی سوچ پیدا ہوتی چلی گئی۔ اس میں مختلف سیاسی حادثات اور واقعات کے ردعمل کا دخل بھی ہے اور کچھ نظریاتی کایا پلٹ ہوجانے کا اثر بھی شامل ہے۔ پھر یوں لگا کہ اس جماعت میں عقابی سوچ کا غلبہ ہو چکا ہے۔ وقت نے کئی بار اس سوچ کو غلط ثابت کیا۔ بہت سے واقعات ایسے رونما ہوئے جن میں اس جماعت پر مجموعی طور فاختائوں کی سوچ غالب رہی اور عقاب دیوار سے لگے رہے۔ پاکستان میں داخلی اسٹرکچر ہی کچھ ایسا ہے کہ یہاں سیاست کا معتدل انداز ہی قبول اور گوارا رہتا ہے۔ مزاحمت اور انقلاب کی لہریں وقتی طور پر اُٹھائی تو جا سکتی ہیں اور رائے عامہ کے ایک مخصوص یا بڑے حصے کو اپنی مٹھی میں بند تو کیا جا سکتا ہے مگرتادیر یہ عمل جاری نہیں رکھا جا سکتا۔ آخر کار یہ انقلاب یا تو اسقاط کے عمل سے گزرتا ہے یا پھر سمجھوتوں کی نذر ہوتا ہوا کسی بند گلی میں داخل ہو کر رہ جاتا ہے۔ پاکستان کی اس زمینی حقیقت کی دیوار سے سر ٹکرانے والے بہت سے دیوانے اپنا سر ہی گنوا بیٹھے۔ جن کے سر سلامت بھی رہے مگر دستار سلامت نہ رہ سکی۔ دیواروں، سروں اور دستاروں کی یہ تاریخ ہی ہماری قومی سیاسی تاریخ ہے۔ یہاں انقلاب نعرے کی حد تک عوام کا دل لبھانے کے لیے تو اچھا ہے مگر یہ برپا کرنے کی چیز نہیں نہ یہ نعرہ عملی دنیا کے بازار میں سکہ رائج الوقت بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ کس کا انقلاب کہاں کہاں اور کتنا سمجھوتا کر بیٹھا۔ سمجھوتا انقلاب کی موت ہوتا ہے۔ اس سے انقلاب کا ڈنگ اور زہر نکل جاتا ہے پیچھے کینچلی رہ جاتی ہے یا خول۔
مسلم لیگ ن نے پچھلے انتخابات میں ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ لگایا۔ مقصد ملک میں ہیئت مقتدرہ کو فیصلہ سازی کے عمل سے نکال باہر کرنا تھا۔ سوشل میڈیا کے ذریعے اس کی پوری فضاء بنائی گئی۔ ’’امام انقلاب‘‘ میاں نوازشریف نے اپنے نظریاتی ہونے کا اعلان کیا۔ گویا کہ وہ بتارہے تھے کہ وہ پارٹی کی داخلی سیاست اور خارجی امور میں اب طبقہ اشرافیہ کے نمائندہ چودھری نثار علی خان کے بجائے این ایس ایف کی سیاست کے خوگر پرویز رشید کی سوچ کے قریب ہو چکے ہیں۔ اس سوچ میں وہ تنہا ہی تھے کیونکہ مسلم لیگ ن کا مزاج اور خمیر حقیقت میں چودھری نثار علی خان کی سوچ سے اُٹھا تھا اور یہی سوچ اس کا مجموعی رنگ وآہنگ
رہی۔ ہیئت مقتدرہ نے ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے نعرے کو اپنا کمبل چرانے کے لیے سجانے والا میلہ جانا اور اپنا کمبل بچانے کے لیے وہ سب کچھ کیا جو ممکن تھا۔ اس کشمکش میں یہ لگتا تھا کہ ابھی حالات کا منظر بدل جائے گا اور ایک عرب بہار طرز کی لہر طاقت کے ایوانوں اور مراکز میں سیلاب بلا کی طرح داخل ہو کر سارے مناظر کو بدل دے گی۔ یہ مثالیت پسندی پاکستان کے سماج کے مزاج اور سیاسی تاریخ سے مطابقت نہیں رکھتی تھی۔ اس لیے گزشتہ انتخابات میں کوئی انقلاب برپا ہوا نہ ووٹ کو عزت ملنے کا نعرہ قومی بیانیہ بن سکا۔ پاکستان کی سیاست کا صفحہ اسی طرح اُلٹ گیا جس طرح ماضی کی روایت ہے۔ نہ کوئی ہوا چلی، نہ کوئی ہاتھ آگے بڑھا اور صفحے کی کھڑکھڑاہٹ اور پھڑ پھڑاہٹ محسوس ہوئی اور غیر محسوس طریقے سے صفحہ اُلٹ گیا۔ مثالیت پسندی پر مبنی نعرے اور دعوے ہوائوں میں تحلیل ہو گئے اور یوں لگا ان نعروں کی ضرورت صرف انتخابات میں عوام کو متوجہ اور متحرک کرنے تک تھی۔ انتخابات کے بعد پھر وہی عملیت پسندی کا دور دورہ تھا۔ پس پردہ مذاکرات، بیک چینل رابطے، دور دور سے اشارے، اشاروں کی زبان کا استعمال اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انقلابی نعروں نے تعلقات کی جو ڈور اُلجھا دی تھی اس میں سلجھائو کے آثار نمایاں ہوئے۔ اس سلجھائو کا ثبوت بھی ملتا چلا گیا۔ خواجہ آصف بھی اسمبلی میں کھڑے ہو کر پوری قوت سے حکومت کو یوں للکار ’’او تم سے کون این آر او مانگتا ہے تم سے کون بات کرنا چاہتا ہے۔ جب این آر او لینا ہوگا تمہیں پتا بھی چلے گا تمہارے سر پر آسمان ٹوٹ گرے گا‘‘ بعد میں خواجہ آصف کی پیش گوئی کے عین مطابق میاں نوازشریف جیل سے نکل کر ملک سے باہر چلے گئے تو یوں لگا کہ حکومت کے سر پر واقعی آسمان ٹوٹ پڑا ہے۔ حکومت کئی دن تک سکتے کی کیفیت میں رہی۔ کم از کم پہلے تین دن تو حکمرانوں پر بھاری رہے۔ حقیقت میں یہی پاکستان کی سیاست ہے اور یہی سیاسی بازار کا سکہ رائج الوقت ہے۔ یہاں گھر سے چی گویرا چلتا ہے تو منزل پر پہنچتے پہنچتے وہ جونیجو، جمالی اور شجاعت حسین بن چکا ہوتا ہے۔
یوں لگتا ہے کہ مسلم لیگ ن کو بھی وقت نے اس حقیقت سے آشنا کر دیا ہے اور شاہد خاقان عباسی کا ایک ٹی وی چینل کو دیا گیا انٹرویو زمینی حقائق کا اعتراف ہے۔ یہ مثالیت پسندی کی وادیوں میں بے مقصد گھومنے کے بعد حقیقت پسندی کی جانب مائل ہونے کا اشارہ ہے۔ شاہد خاقان عباسی نے اپنی روایتی ملائمت کے انداز میں کہا ہے کہ خلائی مخلوق مسلم لیگ ن کے بیانیے میں شامل نہیں۔ انہوں نے یہ تسلیم کیا کہ ملک میں اسٹیبلشمنٹ کا وجود ہے اور وہ سیاسی معاملات میں مداخلت کرتی ہے۔ انہوں نے خلائی مخلوق کی ایک نئے انداز سے تشریح کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا موقف تھا کہ خلائی مخلوق باہر سے آتی ہے جبکہ اسٹیبلشمنٹ اسی ملک سے ہوتی ہے۔ گویا کہ میاںنواز شریف جب یہ کہتے تھے کہ ہمارا مقابلہ خلائی مخلوق سے ہے تو ان کا اشارہ ملکی اسٹیبلشمنٹ کے بجائے امریکا، برطانیہ یا بھارت کی مداخلت سے ہوتا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کا بھی ملکی معاملات پر ایک موقف ہوتا ہے اگر ان کا موقف آپ سے ہم آہنگ نہ ہو تو مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ جو اثرات ہم نے گزشتہ الیکشن میں دیکھے اس سے لگتا ہے کہ ہمارے خیالات کو پسند نہیں کیا گیا۔ شاہد خاقان عباسی نے جس سادہ اور سلیس انداز میں گزشتہ برسوں کی لڑائی اور انقلاب آفرین نعروں اور مسحور کن بیانیوں کی تشریح اور توضیح کی ہے اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ انقلاب کی لہریں اب بیٹھ رہی ہیں اور یہ بڑی جماعت ضائع ہونے کے بجائے بروئے کار آنے کے لیے سنجیدہ ہو چکی ہے۔ شاہد خاقان عباسی کی میٹھی اور زمینی باتیں ہی حقیقت میں سکہ رائج الوقت ہیں کوئی یہ سبق جلد سیکھتا ہے اور کوئی دوچار حادثات کرانے کے بعد اس حقیقت سے آشنا ہوتا ہے۔