مسئلہ کشمیر کا ایک ہی حل، اعلانِ جہاد

928

 زیادہ دن تو گزرے نہیں تھے جب پاکستانیوں نے مقبوضہ کشمیر سمیت دنیا بھر کے کشمیریوں کے ساتھ مل کر یومِ الحاقِ پاکستان منایا تھا اور کشمیریوں کے ساتھ عملی جد وجہد کا عزم باندھا تھا۔ ابھی اس عزم پر ایک ملی میٹر بھی پیش رفت نہیں ہوئی تھی کہ 5 اگست کو یوم استحصالِ کشمیر منا کر ان ہی ساری باتوں کو دہرا دیا گیا جو گزشتہ ایک سال سے کشمیر پر بھارتی قبضے کے بعد سے مختلف اوقات میں دہراتے چلے آ رہے ہیں البتہ اس مرتبہ اس میں نمایاں فرق پاکستان کے نئے نقشے کی نقشے بازی کا ضرور تھا اور وہی کشمیر جس کو پاکستان اپنی شہ رگ قرار دیتا چلا آیا تھا، اس کو ایک مرتبہ پھر اپنے نقشے میں شامل کر کے کشمیریوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے سارا دن نمک پاشی کی جاتی رہی اور کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ ہمدردی کے اس بہروپ کا سہارا لیکر کب تک نمک پاشی کا یہ سلسلہ دراز رکھا جائے گا۔
کشمیر پاکستان کے نقشے میں کب نہیں تھا؟۔ میں اپنی عمر کی ایک ماہ کم، پوری 68 منزلیں طے کر چکا ہوں، میری نگاہوں کے سامنے میرے کورس کی کتابوں میں چھپے، سروے آف پاکستان کے وہ سارے نقشے اس طرح نقش ہیں جیسے آج اور ابھی ابھی میں ان کو دیکھ رہا ہوں۔ ان میں ہنسی خوشی علیحدہ کیا گیا جسم کا وہ حصہ بھی شامل ہے جو کبھی مشرقی پاکستان اور آج بنگلا دیش کہلاتا ہے۔ ایسی کئی بڑی بڑی ریاستیں بھی شامل ہیں جو پاکستان کا قانونی حصہ قرار دیدی گئی تھیں جن میں کشمیر بھی شامل تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ کشمیر کو تو سروے آف پاکستان نے آج سے دوچار سال قبل تک 1947 والے نقشے کے مطابق پاکستان کے نقشے ہی میں شامل رکھا جبکہ دیگر ریاستوں کو خاموشی کے ساتھ پاکستان کے نقشے سے بالکل ہی باہر کیوں نکال دیا، یہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے لیکن اس کا جواب دینے کے لیے کوئی بھی تیار نہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس کشمیر کو ہمیشہ پاکستان کے نقشے میں شامل سمجھا اور رکھا گیا تھا وہ کب اور کیوں پاکستان کے نقشے سے نکال دیا گیا تھا اور کشمیر کی حیثیت یا پرانی شکل و صورت کس نے اور کس کے ایما پر تبدیل کی تھی؟۔ متنازع وادی کشمیر کا بہت بڑا حصہ حدودِ پاکستان میں کیوں اور کس کے کہنے پر شامل کیا گیا اور مقبوضہ وادی کو پاکستان کے نقشے سے کیوں اور کس لیے باہر کیا گیا؟، یہ وہ تمام معاملات ہیں جن کی نہ صرف مکمل تحقیق ہونی چاہیے بلکہ بالا ہی بالا ایسا کرنے والے قومی مجرموں کو سامنے لا کر ان کو نشانِ عبرت بھی بنانا چاہیے۔
جب آج سے ٹھیک ایک سال پہلے بھارت مقبوضہ وادی کو قانوناً اپنا بنانے کے بعد پوری وادی کو سب جیل میں تبدیل کر چکا تھا تو وہ وادی جس کو ہمارے حکمران اور مقتدر قوتیں ہمیشہ اپنی شہ رگ قرار دیتی چلی آئیں تھیں، ان سب کو نہ صرف سانپ سونگھ گیا تھا بلکہ جذبہ جہاد سے سر شار وہ کشمیری جو نہتے ہونے کے باوجود اپنے بھائیوں کے شانہ بشانہ ان کی آزادی کی جدو جہد کا حصہ بننا چاہتے تھے، ان کو بندوق کی نوک پر کنٹرول لائن کے اس پار جانے سے روک کر اس بات کا اعلان کر دیا گیا تھا کہ جو ان کا تھا وہ ان کا ہی تھا البتہ جو ہمارے تسلط میں ہے، اس کا دفاع کیا جائے گا۔ با الفاظِ دیگر یہ ایک غیر تحریری معاہدہ تھا جس کو پوری دنیا کے سامنے موجودہ حکومت اور بادشاہ گروں نے رکھ کر اس بات پر راضی کرنے کی کوشش کی تھی کہ ہمارے چین اور سکون کو برباد کرنے سے گریز کیا جائے۔ اس قسم کا غیر تحریری معاہدہ کرنے سے قبل غالباً اس بات کا ادراک کیا ہی نہیں گیا کہ کنٹرول لائن کے اس جانب والی وادی ہو یا اس جانب والی وادی، پوری وادی، وادی کشمیر ہے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق جب بھی اس کی قسمت کا فیصلہ ہوگا وہ ادھوری نہیں، پوری وادی کا ایک ساتھ ہی ہوگا۔ شاید یہی وہ عالمی دباؤ تھا جس کی وجہ سے بھارت کے کشمیر پر قبضہ کرنے کے ایک سال بعد ان کو 1947 والا وہی نقشہ بحال کرنا پڑا جس میں کشمیر کا ایک بڑا حصہ جو گلگت، اسکردو اور بلتستان پر مشتمل تھا، پاکستان کے نقشے سے باہر دکھانا پڑا جو اپنی جگہ خود ایک وضاحت طلب بات ہے۔
آزاد کشمیر والے ہوں یا مقبوضہ وادی والے۔ پاکستان کے مختلف شہروں میں بسنے والے کشمیری ہوں یا دنیا بھر میں جہاں جہاں بھی کشمیری آباد ہیں، ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو نقشے کی نقشے بازی پر خوش ہو یا اس بات پر متفق ہو کہ زبانی جمع خرچ سے کشمیر کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ ہر پاکستانی اس ڈرامے بازی کے بجائے عملی اقدامات کا خواہش مند ہے۔ 5اگست کو جماعت اسلامی اور دیگر تنظیموں کی جانب سے نکالی جانے والی ساری ریلیوں میں یہی مطالبہ شامل رہا کہ حکومت جہاد کا اعلان کرے۔ اب جبکہ نئے نقشے کے مطابق 15 لاکھ سے زیادہ بھارتی فوجی پاکستانی علاقے میں پاکستانی کشمیریوں پر قہر و قیامت بنے ہوئے ہیں، جہاد بہر صورت فرض ہو چکا ہے اس لیے حکومت پاکستان کو اب کسی تاخیر کے بغیر جہاد کا اعلان کردینا چاہیے قبل اس کے کہ قوم از خود کوئی فیصلہ کر بیٹھے۔