ایک روشن دماغ تھا نہ رہا.محمد طاہر

712

اطہر ہاشمی انتقال فرما گئے! جی چاہتا ہے اُن کے کانوں میں سرگوشی کروں ، اتنی بھی کیا جلدی تھی۔ ابھی تو زبان و بیان کی بہت سی بحثیں باقی تھیں ۔۔ دفتر جانے سے پہلے کسی شام کہیں بیٹھ کر گرم گرم چائے کے کپ پربحثیں اس مادی دنیا سے بے نیاز کرتی تھیں۔ الفاظ کے بدن میں اُتر کر گنجینہ معانی تلاش کرنے کا جتن کوئی معمولی عیاشی تو نہیں۔ کتنی یادگار ملاقاتیں ذہن پر نقش ہیں۔ کتنے لفظوں کو جملوں میں پروتے ہوئے اس کی اصل میں دیکھنے کی جستجو ساتھ ساتھ کی ہے۔ پھر آپ تو کمال ہی کرتے تھے ، الفاظ کی اصلاح کرتے ہوئے اُس پر مزاح کا ورق بھی چڑھا دیتے ۔ غلطی کرنے والا پہلے ہنستا پھر اپنی اصلاح میں ذرا بھی تردد نہ دکھاتا۔ ہم جو اپنی اصل سے ہر سطح پر دور ہوگئے، تہذیبی زندگی کے معنی بھی کھو بیٹھے۔ اب لفظوں کے برتاؤ اور اس کی تہذیب سے بھی گئے۔ اطہر ہاشمی صاحب ایسی بھی کیا جلدی تھی۔ معاف کیجیے گا کورونا کے ہنگام میں ہماری ملاقاتیں ٹلتی رہیں۔ مگر بخدا ہمارے الفاظ کا سبھاؤ برتاؤ آپ کو خراج عقیدت دیتا رہے گا۔ آپ کے جملے ہماری تحریروں کی چٹکیاں لیتے رہیں گے۔