رسال و مسائل

377

مولانا رضی الاسلام ندوی

وراثت کا ایک مسئلہ

سوال: ایک خاتون، اس کے شوہر اور لڑکے کا انتقال کار حادثے میں ہوگیا۔ اس کی صرف ایک لڑکی بچی ہے، جو نازک حالت میں اسپتال میں داخل ہے۔ یہ خاتون شادی سے پہلے نوکری کرتی تھی، جو شادی کے بعد دو ماہ تک جاری رہی۔ نوکری کے وقت کی کچھ رقم بینک میں جمع ہے۔ اس بینک اکاونٹ میں مرحومہ نے اپنے والد کوnominate کیا تھا۔ شادی کے وقت والد نے اپنی بیٹی کو کچھ سونا بشکل زیور دیا تھا۔ شوہر نے بھی مہر بشکل زیور ادا کیا تھا۔ منصوبہ یہ تھا کہ اس کی کمائی ہوئی رقم میں شوہر کی رقم ملاکر اس کے نام پر مکان لے لیا جائے، لیکن یہ نہ ہو سکا۔ اس وقت اس رقم میں شوہر کی رقم شامل نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس خاتون کی وراثت کس طرح تقسیم ہوگی؟ اس کے ورثے میں اس کی لڑکی ہے، جو نازک حالت میں اسپتال میں ہے اور اس (مرحومہ) کے والد اور والدہ ہیں۔ مرحومہ کی ساس اور سسر بھی بقید حیات ہیں۔ اس خاتون کی وراثت میں ان لوگوں کا کچھ حق بنتا ہے یا نہیں؟ وہ لڑکی جو زخمی حالت میں ہے، اس کی عمر صرف ساڑھے تین سال ہے۔ وہ کس کے زیر پرورش رہے گی؟ ددھیال یا ننہیال کے؟ براہِ کرم شریعت کی روشنی میں تشفی بخش جواب سے نوازیے، بہت نوازش ہوگی۔
جواب: کسی شخص کا انتقال ہو (خواہ وہ مرد ہو یا عورت) تو اس کی مملوکہ تمام چیزیں اس کے ورثے میں تقسیم ہوں گی۔ سوال میں جس مرحومہ خاتون کا تذکرہ ہے انھوں نے دورانِ ملازمت جو کچھ کمایا، ان کی شادی کے وقت والد نے جو زیور انھیں بطور تحفہ دیا، شوہر نے مہر کی شکل میں انھیں جو زیور دیا، وہ سب ان کی ملکیت سمجھی جائیں گے۔ بینک اکاؤنٹ میں بطورnominee اگرچہ ان کے والد صاحب کا نام ہے، لیکن صرف وہی اکاؤنٹ میں موجود رقم کے مالک نہیں سمجھے جائیں گے، بلکہ تمام وُرثاء کا اس میں حصہ ہوگا۔
ورثاء میں مرحوم کی ایک بیٹی، ماں اور باپ ہیں۔ بیٹی کا حصہ نصف (50%) اور ماں کا حصہ چھٹا (16.7%) ہوگا۔ باقی (33.3%) باپ کو ملے گا۔ خاتون کی وراثت میں اس کی ساس اور سسر کا کچھ حصہ نہ ہوگا۔
آئندہ زندگی میں نابالغ لڑکی سے دو حقوق متعلق ہیں:
ایک حضانت یعنی بچی کو ساتھ رکھنے کا حق اور دوسرا کفالت یعنی بچی کے اوپرخرچ کرنے کی ذمے داری۔ فقہا نے حضانت کا حق رکھنے والوں کی جو ترتیب بنائی ہے اس میں ماں کے بعد نانی کا نمبر آتا ہے، اس کے بعد دادی کا، البتہ کفالت کی ذمے داری باپ یا اس کے خاندان والوں کی ہے۔ بہرحال مقاصد شریعت کا تقاضا ہے کہ حقوق کی کشمکش اور ذاتی پسند ناپسند سے اوپر اٹھ کر اس کا لحاظ کیا جائے کہ بچے یا بچی کی پرورش کہاں اور کس کے پاس رہ کر اچھے طریقے سے ہوسکتی ہے؟ اس لیے زیادہ مناسب یہ ہوگا کہ لڑکی کے ددھیال اور ننہیال والے باہم مشاورت کرکے، لڑکی کے حق میں جو بہتر ہو اس پر اتفاق کرلیں۔