ؒافکار سید ابوالاعلیٰ مودودی

288

مُحکم
حکَم پکّی اور پختہ چیز کو کہتے ہیں۔ ’’آیاتِ محکمات‘‘ سے مراد وہ آیات ہیں، جن کی زبان بالکل صاف ہے، جن کا مفہوم متعین کرنے میں کسی اشتباہ کی گنجائش نہیں ہے، جن کے الفاظ معنی و مدّعا پر صاف اور صریح دلالت کرتے ہیں، جنہیں تاویلات کا تختۂ مشق بنانے کا موقع مشکل ہی سے کسی کو مِل سکتا ہے۔ یہ آیات’’کتاب کی اصل بنیاد ہیں‘‘، یعنی قرآن جس غرض کے لیے نازل ہوا ہے، اْس غرض کو یہی آیتیں پورا کرتی ہیں۔ اْنہی میں اسلام کی طرف دنیا کی دعوت دی گئی ہے، انہی میں عبرت اور نصیحت کی باتیں فرمائی گئی ہیں، انہی میں گمراہیوں کی تردید اور راہِ راست کی توضیح کی گئی ہے۔ انہی میں دین کے بنیادی اصول بیان کیے گئے ہیں۔ انہی میں عقائد، عبادات، اخلاق، فرائض اور امر و نہی کے احکام ارشاد ہوئے ہیں۔ پس جو شخص طالبِ حق ہو اور یہ جاننے کے لیے قرآن کی طرف رجوع کرنا چاہتا ہو کہ وہ کس راہ پر چلے اور کس راہ پر نہ چلے، اس کی پیاس بجھانے کے لیے آیات محکمات ہی اصل مرجع ہیں اور فطرۃً انہی پر اس کی توجہ مرکوز ہو گی اور وہ زیادہ تر انہی سے فائدہ اٹھانے میں مشغول رہے گا۔
(تفہیم القرآن، سورۃ ال عمران حاشیہ نمبر5)
٭…٭…٭
مُتشابہات
مُتشابہات، یعنی وہ آیات جن کے مفہوم میں اشتباہ کی گنجائش ہے۔
یہ ظاہر ہے کہ انسان کے لیے زندگی کا کوئی راستہ تجویز نہیں کیا جا سکتا، جب تک کائنات کی حقیقت اور اس کے آغاز و انجام اور اس میں انسان کی حیثیت اور ایسے ہی دوسرے بنیادی امور کے متعلق کم سے کم ضروری معلومات انسان کو نہ دی جائیں۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ جو چیزیں انسان کے حواس سے ماورا ہیں، جو انسانی علم کی گرفت میں نہ کبھی آئی ہیں، نہ آسکتی ہیں، جن کو اس نے نہ کبھی دیکھا، نہ چھوا، نہ چکھا، ان کے لیے انسانی زبان میں نہ ایسے الفاظ مل سکتے ہیں جو اْنہی کے لیے وضع کیے گئے ہوں اور نہ ایسے معروف اسالیبِ بیان مِل سکتے ہیں، جن سے ہر سامع کے ذہن میں ان کی صحیح تصویر کھِنچ جائے۔ لامحالہ یہ ناگزیر ہے کہ اس نوعیت کے مضامین کو بیان کر نے کے لیے الفاظ اور اسالیبِ بیان وہ استعمال کیے جائیں، جو اصل حقیقت سے قریب تر مشابہت رکھنے والی محسوس چیزوں کے لیے انسانی زبان میں پائے جاتے ہیں۔ چنانچہ مابعد الطبیعی مسائل کے بیان میں قرآن کے اندر ایسی ہی زبان استعمال کی گئی ہے اور متشابہات سے مراد وہ آیات ہیں، جن میں یہ زبان استعمال ہوئی ہے۔
لیکن اِس زبان کا زیادہ سے زیادہ فائدہ بس اتنا ہی ہو سکتا ہے کہ آدمی کو حقیقت کے قریب تک پہنچا دے یا اس کا ایک دھندلا سا تصوّر پیدا کردے۔ ایسی آیات کے مفہوم کو متعین کرنے کی جتنی زیادہ کوشش کی جائے گی، اتنے ہی زیادہ اشتباہات و احتمالات سے سابقہ پیش آئے گا، حتٰی کہ انسان حقیقت سے قریب تر ہونے کے بجائے اَور زیادہ دور ہوتا چلا جائے گا۔ پس جو لوگ طالبِ حق ہیں اور ذوقِ فضول نہیں رکھتے، وہ تو متشابہات سے حقیقت کے اس دھندلے تصوّر پر قناعت کر لیتے ہیں جو کام چلانے کے لیے کافی ہے اور اپنی تمام تر توجہ محکمات پر صرف کرتے ہیں، مگر جو لوگ بوالفضول یا فتنہ جو ہوتے ہیں ، ان کا تمام تر مشغلہ متشابہات ہی کی بحث و تنقیب ہوتا ہے۔
(تفہیم القرآن، سورۃ ال عمران حاشیہ نمبر6)