غزوہ بنو قریظہ

467

صفی الرحمن مبارکپوری
جس روز رسول اللہؐ خندق سے واپس تشریف لائے اسی روز ظہر کے وقت جب کہ آپ اْمِ سلمہؓ کے مکان میں غسل فرمارہے تھے۔ جبریل علیہ السلام تشریف لائے۔ اور فرمایا: کیا آپ نے ہتھیار رکھ دیے حالانکہ ابھی فرشتوں نے ہتھیار نہیں رکھے۔ اور میں بھی قوم کا تعاقب کرکے بس واپس چلا آرہا ہوں۔ اْٹھیے! اور اپنے رفقا کو لے کر بنو قریظہ کا رخ کیجیے۔ میں آگے آگے جارہا ہوں۔ ان کے قلعوں میں زلزلہ برپا کروں گا، اور ان کے دلوں میں رعب ودہشت ڈالوں گا۔ یہ کہہ کر جبریلؑ فرشتوں کے جلو میں روانہ ہوگئے۔
ادھر رسول اللہؐ نے ایک صحابی سے منادی کروائی کہ جو شخص سمع وطاعت پر قائم ہے وہ عصر کی نماز بنو قریظہ ہی میں پڑھے۔ اس کے بعد مدینے کا انتظام سیدنا ابن ام مکتومؓ کو سونپا۔ اور سیدنا علیؓ کو جنگ کا پھریرا دے کر آگے روانہ فرمادیا۔ وہ بنو قریظہ کے قلعوں کے قریب پہنچے تو بنو قریظہ نے رسول اللہؐ پر گالیوں کی بوچھاڑ کردی۔
اتنے میں رسول اللہؐ بھی مہاجرین وانصار کے جلو میں روانہ ہوچکے تھے۔ آپ نے بنوقریظہ کے دیار میں پہنچ کر ’’انا‘‘ نامی ایک کنویں پر نزول فرمایا۔ عام مسلمانوں نے بھی لڑائی کا اعلان سن کر فوراً دیارِ بنی قریظہ کا رْخ کیا۔ راستے میں عصر کی نماز کا وقت آگیا تو بعض نے کہا: ہم (جیسا کہ ہمیں حکم دیا گیا ہے) بنو قریظہ پہنچ کر ہی عصر کی نماز پڑھیں گے حتیٰ کہ بعض نے عصر کی نماز عشا کے بعد پڑھی، لیکن دوسرے صحابہ نے کہا: آپ کا مقصود یہ نہیں تھا بلکہ یہ تھا کہ ہم جلد ازجلد روانہ ہوجائیں۔ اس لیے انہوں نے راستے ہی میں نماز پڑھ لی، البتہ جب رسول اللہؐ کے سامنے یہ قضیہ پیش ہوا تو آپؐ نے کسی بھی فریق کو سخت سْست نہیں کہا۔
بہرکیف مختلف ٹکڑیوں میں بٹ کر اسلامی لشکر دیار ِ بنو قریظہ میں پہنچا اور نبیؐ کے ساتھ جا شامل ہوا۔ پھر بنو قریظہ کے قلعوں کا محاصرہ کرلیا، اس لشکر کی کل تعداد تین ہزار تھی اور اس میں تیس گھوڑے تھے۔
جب محاصرہ سخت ہوگیا تو یہود کے سردار کعب بن اسد نے ان کے سامنے تین متبادل تجویزیں پیش کیں:
یا تو اسلام قبول کرلیں۔ اور محمدؐ کے دین میں داخل ہوکر اپنی جان، مال اور بال بچوں کو محفوظ کرلیں۔ کعب بن اسد نے اس تجویز کو پیش کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ واللہ! تم لوگوں پر یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ وہ واقعی نبی اور رسول ہیں۔ اور وہ وہی ہیں جنہیں تم اپنی کتاب میں پاتے ہو۔
یا اپنے بیوی بچوں کو خود اپنے ہاتھوں قتل کردیں۔ پھر تلوار سونت کر نبیؐ کی طرف نکل پڑیں۔ اور پوری قوت سے ٹکرا جائیں۔ اس کے بعد یا تو فتح پائیں یا سب کے سب مارے جائیں۔
یا پھر رسول اللہؐ اور صحابہ کرامؓ پر دھوکے سے سنیچر کے دن پل پڑیں کیونکہ انہیں اطمینان ہوگا کہ آج لڑائی نہیں ہوگی۔
لیکن یہود نے ان تینوں میں سے کوئی بھی تجویز منظور نہ کی۔ جس پر ان کے سردار کعب بن اسد نے (جھلا کر) کہا: تم میں سے کسی نے ماں کی کوکھ سے جنم لینے کے بعد ایک رات بھی ہوش مندی کے ساتھ نہیں گزاری ہے۔
ان تینوں تجاویز کو رد کردینے کے بعد بنو قریظہ کے سامنے صرف ایک ہی راستہ رہ جاتا تھا کہ رسول اللہؐ کے سامنے ہتھیار ڈال دیں۔ اور اپنی قسمت کا فیصلہ آپ پر چھوڑ دیں، لیکن انہوں نے چاہا کہ ہتھیار ڈالنے سے پہلے اپنے بعض مسلمان حلیفوں سے رابطہ قائم کرلیں۔ ممکن ہے پتا لگ جائے کہ ہتھیا ر ڈالنے کا نتیجہ کیا ہوگا۔ چنانچہ انہوں نے رسول اللہؐ کے پاس پیغام بھیجا کہ آپ ابو لبابہ کو ہمارے پاس بھیج دیں۔ ہم ان سے مشورہ کرنا چاہتے ہیں۔ ابو لبابہ ان کے حلیف تھے۔ اور ان کے باغات اور آل اولاد بھی اسی علاقے میں تھے۔ جب ابو لبابہ وہاں پہنچے تو مرد حضرات انہیں دیکھ کر ان کی طرف دوڑ پڑے۔ اور عورتوں اور بچے ان کے سامنے دھاڑیں مار مار کررونے لگے۔ اس کیفیت کو دیکھ کر سیدنا ابولبابہؓ پررقت طاری ہوگئی۔ یہود نے کہا: ابو لبابہ ! کیا آپ مناسب سمجھتے ہیں کہ ہم محمدؐ کے فیصلے پر ہتھیار ڈال دیں؟ انہوں نے فرمایا: ہاں! لیکن ساتھ ہی ہاتھ سے حلق کی طرف اشارہ بھی کردیا۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ ذبح کردیے جاؤ گے، لیکن انہیں فوراً احساس ہوا کہ یہ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ خیانت ہے۔ چنانچہ وہ رسول اللہؐ کے پاس واپس آنے کے بجائے سیدھے مسجد نبوی پہنچے۔ اور اپنے آپ کو مسجد کے ایک کھمبے سے باندھ لیا۔ اور قسم کھائی کہ اب انہیں رسول اللہؐ ہی اپنے دست مْبارک سے کھولیں گے۔ اور وہ آئندہ بنوقریظہ کی سرزمین میں کبھی داخل نہ ہوں گے۔ ادھر رسول اللہؐ محسوس کررہے تھے کہ ان کی واپسی میں دیر ہورہی ہے۔ پھر جب تفصیلات کا علم ہو اتو فرمایا: اگر وہ میرے پاس آگئے ہوتے تو میں ان کے لیے دعائے مغفرت کردیے ہوتا، لیکن جب وہ وہی کام کر بیٹھے ہیں تو اب میں بھی انہیں ان کی جگہ سے کھول نہیں سکتا، یہاں تک اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول فرمالے۔
ادھر ابو لبابہ کے اشارے کے باوجود بنو قریظہ نے یہی طے کیا کہ رسول اللہؐ کے سامنے ہتھیار ڈال دیں۔ اور وہ جو فیصلہ مناسب سمجھیں کریں حالانکہ بنو قریظہ ایک طویل عرصے تک محاصرہ برداشت کرسکتے تھے کیونکہ ایک طرف ان کے پاس وافر مقدارمیں سامان خورو نوش تھا، پانی کے چشمے اور کنوئیں تھے۔ مضبوط اور محفوظ قلعے تھے۔ اور دوسری طرف مسلمان کھلے میدان میں خون منجمد کر دینے والے جاڑے اور بھْوک کی سختیاں سہ رہے تھے۔ اور آغازِ جنگِ خندق کے بھی پہلے سے مسلسل جنگی مصروفیات کے سبب تکان سے چور چور تھے، لیکن جنگ بنی قریظہ درحقیقت ایک اعصابی جنگ تھی۔ اللہ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا تھا۔ اور ان کے حوصلے ٹوٹتے جارہے تھے۔ پھر حوصلوں کی یہ شکستگی اس وقت انتہا کو پہنچ گئی جب سیدنا علی بن ابی طالبؓ اور زبیر بن عوامؓ نے پیش قدمی فرمائی۔ اور علیؓ نے گرج کر یہ اعلان کیا کہ ایمان کے فوجیو! اللہ کی قسم! اب میں بھی یا تو وہی چکھوں گا جو حمزہؓ نے چکھا یا ان کا قلعہ فتح کرکے رہوں گا۔
چنانچہ علیؓ کا یہ عزم سن کر بنو قریظہ نے جلدی سے اپنے آپ کو رسول اللہؐ کے حوالے کردیا کہ آپ جو فیصلہ مناسب سمجھیں کریں۔ رسول اللہؐ نے حکم دیا کہ مردوں کو باندھ دیا جائے۔ چنانچہ محمد بن مسلمہ انصاریؓ کے زیر نگرانی ان سب کے ہاتھ باندھ دیے گئے۔ اور عورتوں اور بچوں کو مَردوں سے الگ کردیا گیا۔ قبیلہ اوس کے لوگ رسول اللہؐ سے عرض پر داز ہوئے کہ آپ نے بنو قینقاع کے ساتھ جو سلوک فرمایا تھا وہ آپ کو یاد ہی ہے بنو قینقاع ہمارے بھائی خَزرج کے حلیف تھے اور یہ لوگ ہمارے حلیف ہیں۔ لہٰذا ان پر احسان فرمائیں۔ آپ نے فرمایا: کیا آپ لوگ اس پر راضی نہیں کہ ان کے متعلق آپ ہی کا ایک آدمی فیصلہ کرے؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں! آپ نے فرمایا: تو یہ معاملہ سعد بن معاذ کے حوالے ہے۔ اَوس کے لوگوں نے کہا: ہم اس پر راضی ہیں۔
اس کے بعد آپ نے سعد بن معاذؓ کو بلا بھیجا۔ وہ مدینہ میں تھے، لشکر کے ہمراہ تشریف نہیں لائے تھے، کیونکہ جنگِ خندق کے دوران ہاتھ کی رگ کٹنے کے سبب زخمی تھے۔ انہیں ایک گدھے پر سوار کرکے رسول اللہؐ کی خدمت میں لایا گیا۔ جب قریب پہنچے تو ان کے قبیلے کے لوگوں نے انہیں دونوں جانب سے گھیر لیا۔ اور کہنے لگے: سعد! اپنے حلیفوں کے بارے میں اچھائی اور احسان سے کام لیجیے گا… رسول اللہؐ نے آپ کو اسی لیے حَکم بنایا ہے کہ آپ ان سے حسن سلوک کریں۔ مگر وہ چپ چاپ تھے کوئی جواب نہ دے رہے تھے۔ جب لوگوں نے گزارش کی بھر مار کردی تو بولے: اب وقت آگیا ہے کہ سعد کو اللہ کے بارے میں کسی ملامت گر کی پروا نہ ہو۔ یہ سن کر بعض لوگ اسی وقت مدینہ آگئے اور قیدیوں کی موت کا اعلان کردیا۔
اس کے بعد جب سعد نبیؐ کے پاس پہنچے تو آپ نے فرمایا: اپنے سردار کی جانب اٹھ کر بڑھو۔ (لوگوں نے بڑھ کر) جب انہیں اتار لیا تو کہا: اے سعد! یہ لوگ آپ کے فیصلے پر اترے ہیں۔ سیدنا سعدؓ نے کہا: کیا میرا فیصلہ ان پر نافذ ہوگا؟ لوگوں نے کہا جی ہاں! انہوں نے کہا مسلمانوں پر بھی؟ لوگوں نے کہا: جی ہاں! انہوں نے پھر کہا: اور جو یہاں ہیں ان پر بھی؟ ان کا اشارہ رسول اللہؐ کی فرودگاہ کی طرف تھا۔ مگر اجلال وتعظیم کے سبب چہرہ دوسری طرف کر رکھا تھا۔ آپ نے فرمایا: جی ہاں! مجھ پر بھی۔ سعدؓ نے کہا: تو ان کے متعلق میرا فیصلہ یہ ہے کہ مردوں کو قتل کردیا جائے، عورتوں اور بچوں کو قید ی بنا لیا جائے۔ اور اموال تقسیم کردیے جائیں۔ رسول اللہؐ نے فرمایا: تم نے ان کے بارے میں وہی فیصلہ کیا ہے جو سات آسمانوں کے اوپر سے اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے۔
سیدنا سعدؓ کا یہ فیصلہ انتہائی عدل وانصاف پر مبنی تھا کیونکہ بنو قریظہ نے مسلمانوںکی موت وحیا ت کے نازک ترین لمحات میں جو خطرناک بدعہدی کی تھی وہ تو تھی ہی، اس کے علاوہ انہوں نے مسلمانوں کے خاتمے کے لیے ڈیڑھ ہزار تلواریں، دو ہزار نیزے، تین سو زِرہیں اور پانچ سو ڈھال مہیا کررکھے تھے جس پر فتح کے بعد مسلمانوں نے قبضہ کیا۔
اس فیصلے کے بعد رسول اللہؐ کے حکم پر بنو قریظہ کو مدینہ لاکر بنو نجار کی ایک عورت (جو حارث کی صاحبزادی تھیں) کے گھر میں قید کردیا گیا۔ اور مدینہ کے بازار میں خندقیں کھود ی گئیں، پھر انہیں ایک ایک جماعت کرکے لے جایا گیا۔ اور ان خندقوں میں ان کی گردنیں ماردی گئیں۔ کارروائی شروع ہونے کے تھوڑی دیر بعد باقی ماندہ قیدیوں نے اپنے سردار کعب بن اسد سے دریافت کیا کہ آپ کا کیا اندازہ ہے؟ ہمارے ساتھ کیا ہورہاہے؟ اس نے کہا: کیا تم لوگ کسی بھی جگہ سمجھ بوجھ نہیں رکھتے؟ دیکھتے نہیں کہ پکارنے والا رک نہیں رہا ہے اور جانے والا پلٹ نہیں رہا ہے؟ یہ اللہ کی قسم! قتل ہے۔ بہر کیف ان سب کی (جن کی تعداد چھ اور سات سو کے درمیان تھی) گردنیں ماردی گئیں۔