اطہر ہاشمی کا انتقال صحافت کا بڑا نقصان

545

جمعرات 6 اگست کی صبح صحافت کا درخشندہ ستار روزنامہ جسارت کے ایڈیٹر انچیف سید اطہر علی ہاشمی انتقال کرگئے۔ ان کی عمر 74 برس تھی۔ تقریباً 45 برس صحافت سے وابستہ رہے۔ نہایت نرم خو، نرم طبیعت کے مالک، بلا کی ذہانت، وسیع المطالعہ شخصیت ان سے لوگوں کی جتنی ملاقاتیں ہوتیں ان کے سامنے اطہر ہاشمی کا ایک نیا ہنر کھلتا۔ ساری عمر حق گوئی و بیباکی کے سبق کو دہراتے رہے۔ کبھی خوفزدہ نہیں ہوئے۔ اطہر ہاشمی کے انتقال سے صحافت میں جو خلا پیدا ہوا ہے وہ شاید کبھی پر نہیں حوسکے گا کیونکہ اب جس قبیل کے لوگ صحافت میں آرہے ہیں اور جس قسم کی صحافت ہورہی ہے اس میں اطہر ہاشمی صاحب جیسے نابغہ روزگار لوگ پیدا ہونا ممکن نہیں۔ اطہر ہاشمی صحافت کی نرسری، اکیڈمی، یونیورسٹی سب کچھ تھے۔ ان کے شاگردوں اور فیض اٹھانے والوں کی تعداد کو شمار کرنا ممکن نہیں۔ روزنامہ جسارت سے شروع ہونے والا صحافتی سفر بھی اتفاق سے روزنامہ جسارت ہی پر ختم ہوا۔ اطہر ہاشمی صاحب روزنامہ جسارت سے اردو نیوز جدہ گئے وہاں خدمات پیش کیں۔ پابندی اور جبر کے ماحول میں بہترین انداز میں اداریے اور کالم لکھے۔ اداریوں پر پابندی یا انتظامیہ نے ذمہ داری اٹھانے سے انکار کردیا تو اس کا نام اشاریہ تجویز کرکے لکھنے والے کا نام نیچے لکھنے کی تجویز دی جو منظور ہوئی اس طرح نئے لکھنے والوں کو مواقع ملے۔ یہ بات تو کوئی نہیں جانتا کہ کئی لوگوں کے نام سے اشاریے بھی وہ لکھ دیتے تھے۔ سید اطہر علی ہاشمی کا انتقال صرف روزنامہ جسارت کے لیے نقصان نہیں ہے یہ بات سب ہی جانتے ہیں اور ہر گزرنے والا دن اس کا مزید اظہار کرے گا کہ اطہر ہاشمی اب دنیا میں نہیں رہے۔ اطہر ہاشمی کی تحریریں موجود رہیںگی۔ ان کے تربیت یافتہ لوگ رہیںگے یہی صدقہ جاریہ ہے۔ اطہر ہاشمی خبر لیجئے زباں بگڑی کے عنوان سے کالم لکھا کرتے تھے جس میں صحافیوں، ٹی وی چینلز والوں میں سیاستدانوںاور دانشوروں کی زبان کی اصلاح کرتے تھے۔ اکثر وہ جسارت میں شائع ہونے والے غلط الفاظ کو منتخب کرتے اور شکوہ کرتے کہ بار بار توجہ دلانے کے باوجود یہ غلطی ہورہی ہے۔ لیکن اب اخباری کارکنوں کا ایک بڑا سایہ دار درخت نہیں رہا۔ غلطیوں کی اصلاح کرنا تو دور کی بات اب غلطیوں کا احساس دلانے والا بھی نہیں رہا۔ اپنے نرم مزاج کے باوجود اطہر ہاشمی حق بات پر مضبوطی سے جم جانے والے صحافی تھے۔ اور کبھی کسی سرکار یا غنڈہ دبائو میں نہیں آئے۔ حق مغفرت کرے عجب آزاد تھا۔