چئیرمین نیب قانون سے ماوراکیسے بھرتیاں کرسکتے ہیں،عدالت عظمیٰ

271

اسلام آباد ( آن لائن)عدالت عظمیٰ نے ڈی جی نیب راولپنڈی عرفان نعیم منگی کے تقرر اور اہلیت پر سوال اٹھادیا اورنیب کے تمام ڈی جیز کے تقرر سے متعلق تفصیلات طلب کرلیں۔عدالت عظمیٰ نے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کرتے ہوئے چیئرمین نیب کے افسران کی بھرتیوں کے اختیار کا نوٹس بھی لے لیا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے نیب پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ نیب افسران کی نااہلی کی وجہ سے لوگ جیلوں میں سڑ رہے ہیں، ہمیں اللہ سے زیادہ ایک آمر کا خوف ہوتا ہے، ملک کو 2 حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے، ہر بندہ کرسی پر بیٹھ کر اپنا ایجنڈا چلا رہا ہے۔بدھ کو عدالت عظمیٰ میں جسٹس مشیر عالم اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے نیب افسران کے نام پر پیسے لینے والے ملزم محمد ندیم کی ضمانت کی درخواست پر سماعت کی۔ سماعت کے آغاز پر تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ ملزم نے عرفان منگی سمیت مختلف افسران کو اہم شخصیات بن کر کالز کیں،
ملزم کے خلاف نیب کی جانب سے مقدمہ درج کرایا گیا۔اس پر جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر عرفان منگی کو کال کی تھی تو انکا بیان کیوں ریکارڈ نہیں کیا گیا۔ جسٹس مشیر عالم نے تفتیشی افسر سے استفسار کیا کہ کیا ملزم کے فون کا فرانزک کرایا گیا، اس کیس میں ابھی تک کسی گواہ کا ابتدائی بیان ہی نہیں لیا گیا، جس پر تفتیشی افسر نے کہا کہ فرانزک کی ابھی تک رپورٹ نہیں آئی۔ ملزم کے وکیل ظفر وڑائچ نے عدالت کو بتایا کہ ان کے مو¿کل کے خلاف بلاوجہ مقدمات بنائے جا رہے ہیں، کسی متاثر کا بیان ریکارڈ تک نہیں کیا گیا جبکہ پہلے نیب ریفرنس بنایا گیا پھر ایف آئی آر درج کرائی گئی۔ سماعت کے دوران جسٹس مشیر عالم نے ریمارکس دیے کہ ہم سب ریاست کے ملازم ہیں، ہم سب نے مل کر قانون کی عملداری میں حائل قوتوں کا مقابلہ کرنا ہے، حکام کو قانون کے مطابق رائے دینا لا افسران کی ذمے داری ہے،قانون کا وقار بحال کیے بغیر قانون کی عملداری قائم نہیں ہو سکتی۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ محمد ندیم مڈل پاس ہے اور تفتیش کے مطابق ملزم کے پاس صرف ایک بھینس ہے، ملزم کیسے بہاولپور سے نیب افسر بن کر کال کرتا تھا ، محمد ندیم نے ایم ڈی پی ایس او کو ڈی جی نیب بن کر کال کی، ملزم کے پاس کیسے بڑے بڑے افسران کے نمبر آگئے؟اس پرنیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ایم ڈی پی ایس او سمیت 22 افراد کی مختلف شکایتیں ملیں اور پی ایس او کے ایم ڈی نے ڈی جی نیب عرفان منگی سے رابطہ کیاہے ۔پراسیکیوٹر کی بات پر عدالت عظمیٰ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا کہ عرفان منگی آپ کی تعلیم اور تنخواہ کیا ہے، جس پر انہوں نے عدالت کو جواب دیا کہ میں انجینئر ہوں اور میری تنخواہ 4 لاکھ 20 ہزار روپے ہے۔اس پر جسٹس فائز عیسیٰ نے پوچھا کہ کیا آپ فوجداری معاملات کا تجربہ رکھتے ہیں،جس پرعرفان منگی نے جواب دیا کہ میرا فوجداری مقدمات کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ ایک انجینئر نیب کے اتنے بڑے عہدے پر کیسے بیٹھا ہوا ہے، نیب کیسے کام کررہا ہے،نیب کا سیکشن 28 آئین کے آرٹیکل 240 سے متصادم ہے، چیئرمین نیب آئین اور قانون کو بائی پاس کرکے کیسے بھرتیاں کرسکتے ہیں،چیئرمین نیب کس قانون کے تحت بھرتیاں کرتے ہیں؟،عرفان منگی کس کی سفارش پر نیب میں گھس آئے، چیئرمین نیب اب جج نہیں، ہم انہیں عدالت بلاسکتے ہیں۔جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ مارشل لا میں قانون کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں، ہمیں اللہ سے زیادہ ایک ڈکٹیٹر کا خوف ہوتا ہے، مارشل لا سے بہتر ہے دوبارہ انگریزوں کو حکومت دے دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ نیب عوام کے پیسے سے چلتا ہے،سب عوام کے نوکر ہیں ،ملک کو 2 حصوں میں تقسیم کردیا گیا، ہر بندہ کرسی پر بیٹھ کر اپنا ایجنڈا چلا رہا ہے، نیب جس معاملے میں چاہتا ہے گھس جاتا ہے، ہم نیب کا میڈیا ٹرائل نہیں کر رہے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ نیب والے عوام کے ملازم ہیں، بار بار مواقع دیے مگر نیب کے غیر قانونی کام جاری ہیں، نیب افسران کی نااہلی کی وجہ سے لوگ جیلوں میں سڑ رہے ہیں، لوگوں کو ڈرانے کے لیے نیب کا نام ہی کافی ہے۔ عدالت نے ڈی جی نیب راولپنڈی عرفان نعیم منگی سمیت نیب کے تمام ڈی جیز کے تقرر سے متعلق تفصیلات طلب کرلیں۔عدالت عظمیٰ نے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کرتے ہوئے چیئرمین نیب کے افسران کی بھرتیوں کے اختیار کا نوٹس بھی لے لیا۔عدالت نے درست معاونت نہ کرنے پر ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نیاز اللہ نیازی اور نیب پراسیکیوٹر عمران لاحق کی سخت سرزنش بھی کی۔بعد ازاں عدالت نے ملزم محمد ندیم کی ضمانت منظور کرتے ہوئے کیس کی سماعت کو غیرمعینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردیا۔