افغانستان: بھارتی دہشت گردی اور پاکستان کی خاموشی

802

جلال آباد کی مرکزی جیل میں منگل کی رات ہونے والے ’’جیل توڑ‘‘ حملے میں اب تک کی اطلاعات کے مطابق 50افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے۔ اطلاعات یہ ہیں کہ ان حملوں میں مرنے والوں میں اکثریت ان طالبان کی ہے جن کی رہائی کو طالبان نے ’’افغانستان میں قیام امن سے مشروط کر رکھا تھا اور افغان صدر اشرف غنی ان کی رہائی میں رکاوٹ بنے ہوئے تھے‘‘ شاید اسی لیے تاخیری حربے استعمال کرکے ان کو منصوبے کے تحت ’’جیل توڑ‘‘ حملے میں ہلاک کر دیا گیا۔ ان حملوں کی شدت کو دیکھتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ ’’یہ حملہ داعش یا کسی بھی شدت پسند تنظیم کا اکیلے نہیں ہوسکتا بلکہ اس حملے میں ایک سے زائد حکومتیں شامل ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس حملے کے دوران افغانستان کے ’’آرمی چیف جنرل یاسین ضیاء‘‘ بھی حملہ آوروں کے خلاف ہونے والی کارروائی کی نگرانی کر رہے تھے اور ان کو ہنگامی طور پر جلال آباد کی مرکزی جیل آنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ حملہ آوروں کے پاس اس قدر اسلحہ موجود تھا جس سے انہوں نے 20گھنٹے تک افغان فوج کا مقابلہ کیا اور 18 آوروں کی اس مقابلے میں مارے جانے کی اطلاعات ہیں۔ اس دوران بہت سے حملہ آور بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے اور وہاں کی سیکورٹی ان کے خلاف کوئی خاص کارروائی کرنے سے قاصر رہی۔ اس حملے کی ذمے داری ’’داعش‘‘ نے قبول کرلی ہے اور ان کا تعلق کہاں سے بنتا ہے اس بارے میں چند دن قبل اقوام متحدہ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ افغانستان میں 6ہزار بڑے دہشت گرد ہیں جن کا مددگار بھارت ہے اور یہ بڑے دہشت گرد پاکستان کے خلاف دہشت گردی کرتے رہتے ہیں۔
یہ سلسلہ بہت دور سے چلا آرہا ہے اور بھارت کی ہمیشہ یہی کوشش رہتی ہے کہ وہ اسلامی ممالک سے مل کر پاکستان کے خلاف کارروائی کرے اس مقصد کے لیے وہ ایران، افغانستان اور سینٹر ایشیا، سائوتھ ایشیا اور مڈل ایسٹ کے اسلامی ممالک کو استعمال کرتا رہا ہے۔ پاکستان کے خلاف شدت پسندوں کو استعمال کرنے کے لیے 2014ء میں بھارتی نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر اجیت دوول نے شام اور عراق کا دورہ کیا جس کا مقصد یہ بتایا گیا تھا کہ وہ ان ممالک میں جنگ زدہ علاقوں میں پھنسے بھارتی شہریوں کے انخلا پر بات چیت کرنے گئے تھے، مگر حقیقت یہ تھی کہ وہ اس دورے کی آڑ میں دہشت گرد تنظیموں کے سربراہوں اور اعلیٰ قیادت سے ملاقاتیں کرتے رہے۔ اسی دوران قندھار میں بھارتی قونصلیٹ کو تحریک طالبان پاکستان اور عراق اور شام میں شدت پسند عناصر کے درمیان تعلقات کے قیام اور فروغ کے لیے استعمال کیا جاتا رہا۔ بھارتی خفیہ ایجنسی را کی طرف سے افغانستان میں القاعدہ اور عراق اور شام میں شدت پسندوں کے ساتھ تعلقات پر توجہ کا بنیادی مقصد پاکستان میں دہشت گردی کی نئی مہم کا آغاز ہے۔ جس کو پاکستان کی فوج اور حکومت نے بہت کوششوں کے بعد ختم کر دیا ہے۔ بھارتی کوششوں کا مقصد ایران، عراق اور شام میں پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنا ہے۔ اس سے پہلے عراق اور شام میں شدت پسندوں کی طرف سے ایک بیان میں یہ تاثر دیا جاچکا ہے کہ یہ تنظیم آنے والے وقت میں جوہری ہتھیار حاصل کرسکتی ہے، اور بھارت اسی قسم کی لایعنی باتوں کا تعلق پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام سے جوڑنے کے لیے مذموم کوششوں میں مصروف ہے۔ 2017ء میں لندن میں ’’کنفلکٹ آرمامنٹ ریسرچ‘‘ نامی ادارے کی ایک تحقیقی رپورٹ سے انکشاف ہوا ہے کہ عراق اور شام میں شدت پسندوںکے زیرِ استعمال بموں اور بارودی سامان کے اہم اجزا کا دوسرا بڑا ماخذ بھارت ہے۔ عراق اور شام میں شدت پسند جو بم اور دھماکا خیز مواد استعمال کررہے ہیں اس کی تاریں، سیفٹی فیوز، ڈیٹونیٹرز اور دیگر سامان بھارتی کمپنیوں کے تیار کردہ ہیں۔ عراق اور شام میں شدت پسندوں کے لیے بھارتی ادارے دوسرے بڑے سپلائر ہیں۔ ان میں بھارتی کمپنیوں کی تعداد 7 ہے۔ طالبان کے حوالے سے پاکستان پر الزام تراشی کرنے والے افغان وزراء افغانستان میں داعش کی موجودگی کے مسئلہ پر بالکل خاموش ہیں۔ جلال آباد جیل پر حملوں میں جس میں حملہ آوروں نے 20گھنٹے تک افغان فوج کا مقابلہ کیا یہ بات ایک مرتبہ پھر کھل کر سامنے آگئی ہے کہ یہ حملہ کسی ملک کی حمایت کے بغیر ناممکن ہے۔ 2014 سے یہ اطلاعات بھی ہیں کہ امریکی ساختہ چھوٹے اسلحہ شدت پسندوں کے پاس موجود ہیں ان علاقوں میں شدت پسند امریکی ساختہ میزائل چلاتے ہوئے دکھائے گئے ہیں۔ اور دعویٰ کیا گیا ہے کہ عراق اور شام میں شدت پسندوں کے پاس اینٹی ٹینک میزائل موجود ہیں۔ یہ اب تک واضح نہیں ہو سکا کہ امریکی ساختہ ہتھیار عراق اور شام میں شدت پسندوںکے پاس کس طرح پہنچ رہے ہیں۔ اس کا بھی ایک ہی جواب ہے امریکا کے اتحادی بھارت کی مدد سے پاکستان کے خلاف استعمال ہونے کے لیے عراق اور شام میں شدت پسندوں کے پاس یہ ہتھیار پہنچائے جارہے ہیں اور پھر بھارت کے ساتھ اس کا اتحادی امریکا بھی شامل تھا۔ اس سلسلے میں چین سے نکلنے والے اخبار ’’South China Morning Post‘‘ کے آرٹیکل میں ہے کہ: Between US and China, new Trade roads lead to Afganistan-and fierce competition اس کے مضمون کی تفصیل میں بتایاگیا ہے کہ: ’’بیجنگ واشنگٹن کی لڑائی بڑھتے بڑھتے افغانستان اور سینٹر ایشیا، سائوتھ ایشیا اور مڈل ایسٹ تک پہنچ چکی ہے‘‘۔
اور اب سب سے اہم بات جو مضمون نگار کا کہنا ہے کہ! جولائی میں امریکا کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد پاکستان، افغانستان اور قطر کے دورے پر آئے۔ ان کے ساتھ اس دورے میں انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن کے صدر بھی تھے۔ انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن کے صدر نے پاکستان اور افغانستان کو یہ صاف طور سے بتا دیا کہ سی پیک کو راستہ افغانستان سے نہیں جائے گا اور اس سے قبل مئی میں امر یکا کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد بھارت کے دورے پر بھی گئے تھے جہاں انہوں نے بھارت اور طالبان سے ملاقات اور مذاکرات کی بات کی تھی جس کے جواب میں طالبان نے بھارت کو افغانوں کا غدار کہہ کر اس کی اوقات دکھا دی تھی۔ اس دورے میں یہ تاثر بھی سامنے آیا کہ امریکا افغانستان سے واپس نہیں جارہا ہے یہ بات امریکا کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد نے پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو بھی بتائی ہوگی لیکن شاہ صاحب پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کے لیے قانون سازی میں الجھانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔
پاکستان میں دہشت گردی کو فروغ دینے کی بھارتی کوششیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں اور یہ اطلاعات بھی تواتر سے سامنے آتی رہی ہیں کہ بھارت افغانستان میں دہشت گرد گروپوں سے تعلق قائم کرنے کی کوشش میں ہے تاکہ نہ صرف افغانستان میں عدم استحکام پیدا کیا جائے بلکہ پاکستان کو بھی نقصان پہنچانے کی سازش کی جائے۔ ایک رپورٹ کے مطابق بھارت نہ صرف پاکستانی طالبان کی پشت پناہی میں مصروف رہا ہے بلکہ افغانستان میں عراق اور شام میں شدت پسندوں کے پاس جاتا رہا ہے اور القاعدہ سے بھی اپنے تعلقات مضبوط کرنے کے لیے نئے اقدامات کررہا ہے۔
اس پوری صورتحال میں پاکستان کی اب تک یہی پالیسی ہے کہ دنیا میں امریکا اور چین کی لگی جنگ کی آگ سے اپنے آپ کو بچائے رکھے اور وہ یہ کوشش کر رہا ہے وہ دونوں کو راضی رکھے لیکن اب ایسا ممکن نہیں ہے۔ 2019ء میں پاکستان کے مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ سے جب یہ کہا جاتا کہ آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان ہو نے والے معاہدے سے اسمبلی اور عوام کو آگاہ کریں تو ان کا ایک ہی جواب ہوتا کہ معاہدے کھولنے سے قومی سلامتی کا مسئلہ پیدا ہو جائے گا۔ آئی ایم کے لیے معاہدے کے مذاکرات میں مشیرِخزانہ عبدالحفیظ شیخ اور موجودہ گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان جن کا شناختی کارڈ بھی پاکستان کا بنا ہوا نہیں ڈاکٹر رضا باقر شامل ہوئے تھے ان دونوں کے درمیان کیا مذاکرات ہوئے اس سے شاید وزیر اعظم عمران خان بھی پوری طرح واقف نہیں ہوں گے کیوں کہ اس بعد جو کچھ سامنے آیا اس سے نہ صرف ملک کی معیشت کا اچھا حال بدحال ہوگیا۔ اس کے علاوہ ملکی سلامتی کو بھی خطرہ لاحق ہو چکا ہے۔
اس بات کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان اور چین کے درمیان ہونے والے آزاد تجارتی معاہدے کے موقع پر چین میں اجلاس کے دوران چینی حکومت نے وزیر تجارت عبدالرزاق داؤد کو یہ کہہ کر اُٹھا دیا تھا کہ یہ امریکا کے لیے کام کرتے ہیں موجودہ حکومت کے دور میں امریکا اور بھارت مخالف سی پیک میں سب سے اہم کردار کسی بھی ملک کے وزیر خزانہ اور گورنر اسٹیٹ بینک کا ہوتا ہے اور دنیا بھر میں جہاں جہاں یہ معاہدے ہو رہے اس میں وزیر خزانہ کا کردار بہت اہم ہے لیکن ہمارے مشیرِ خزانہ عبدالحفیظ شیخ کا طرز گفتگو مشیرِ خزانہ سے زیادہ وائسرائے جیسا نظر آتا ہے۔ اسی لیے سی پیک کے لیے ایک الگ اتھارٹی بنائی گئی ہے جو ان معاملات کو دیکھ رہی ہے۔
اس پوری صورتحال سے پاکستان جس قدر جلدی نکل جائے گا پاکستان کی ترقی اور کامرانی کی منزلیں اسی قدر تیزی سے مکمل ہوتی جائیں گی۔ جیسا کہ اُوپر بیان ہو چکا ہے کہ: ’’بیجنگ واشنگٹن کی لڑائی بڑھتے بڑھتے افغانستان اور سینٹر ایشیا، سائوتھ ایشیا اور مڈل ایسٹ تک پہنچ چکی ہے‘‘۔ ایک ماہ کے دوران افغانستان میں امن وامان کی صورتحال کو خراب اور تباہ کر دیا گیا ہے۔ رشید دوستم کو مارشل کا خطاب بھارتی کوششوں ہی سے حاصل ہوا ہے اور مارشل صاحب آتے ہی طالبان کے لیے ایک مرتبہ افغانستان کو نوگو ایریا بنانے میں مصروف ہیں۔ سائوتھ ایشیا اور مڈل ایسٹ میں تیزی سے جنگ جاری ہے ان حالات میں پاکستان کے لیے قومی سلامتی کے خدشات میں گزرتے وقت کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ جس پر جس قدر تیزی سے کام کیا جائے گا پاکستان کی سلامتی اس قدر تیزی سے محفوظ ہوتی جائے گی۔ اس سلسلے میں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ افغانستان کا امن پاکستان، بنگلادیش، چین اور سینٹر ایشیا، سائوتھ ایشیا اور مڈل ایسٹ کے لیے اہم ہے۔ اس کے بغیر ترقی کا تصور بھی محال ہے۔