کنٹرول لائن، موسم ِ گل میں آگ اُگلتی خونی لکیر

828

کشمیر کی کنٹرول لائن کی گرما گرمی جاری ہے اور حادثات وواقعات کا سلسلہ بھی پوری رفتار سے جاری ہے۔ اس دوران آزاد کشمیر اور راولپنڈی اسلام آباد میں مقیم کشمیری صحافیوں نے پانچ اگست کے بعد اور کنٹرول لائن پر بڑھتی ہوئی کشیدگی اور اس کے اثرات کے حوالے سے صورت حال جاننے کے لیے انٹر سروسز انٹیلی جنس کے ہیڈ کوارٹر کا دورہ کیا جہاں آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل بابر افتخار نے کشمیری اخبار نویسوں کو پانچ اگست کے بعد کی صورت حال، بھارت کی ہائبرڈ وار اور کنٹرول لائن کی کشیدگی سمیت کئی اہم موضوعات پر تفصیلی بریفنگ دی جس کے بعد سوال وجواب کی نشست بھی ہوئی۔ جنرل بابر افتخار نے ایک سوال کے جواب میں افواج پاکستان کے ترجمان کی حیثیت سے ایک بات وضاحت کے ساتھ کی کہ پانچ اگست سے پہلے یا اس کے بعد پاکستان کی ریاست کی کوئی مرضی ومنشا شامل نہیں اور اس حوالے سے ڈیل ہوجانے کی باتیں قطعی بے بنیاد ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان پانچ اگست کے اقدامات کو ریورس کرائے بغیر بھارت سے نارمل تعلقات قائم نہیں کرے گا۔ کشمیر ی صحافیوں کے دورے سے پہلے آئی ایس پی آر کے زیر اہتمام غیر ملکی صحافیوں کے ایک وفد نے چڑی کوٹ سیکٹر میں کنٹرول لائن کا دورہ کیا۔ اس دورے کا اہتمام مقبوضہ کشمیر کی شناخت میں تبدیلی کے بھارتی فیصلے کو ایک سال ہونے کے موقع پر کیا گیا تھا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق وفد نے کنٹرول لائن کی صورت حال کا تفصیلی مشاہدہ کیا اور ان بھارتی پوسٹوں کا جائزہ بھی لیا جو نہتی آبادی کو نشانہ بناتی ہیں۔ صحافیوں نے بہ چشم خود بھارت کے وہ حفاظتی انتظامات بھی دیکھے جس کے بعد چڑیا پر بھی نہیں مار سکتی، مگر بھارت مسلسل آزاد کشمیر سے دراندازی کے الزامات عائد کرتا ہے۔ اخبار نویسوں کو بتایا گیا کہ رواں برس 1657 مرتبہ بھارتی فوجیوں نے کنٹرول لائن کی خلاف ورزی کی۔
غیر ملکی صحافیوں کا دورہ اس لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے کہ دنیا کو یہ علم ہوگا کہ حقیقت میں کنٹرول لائن پر دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان کیا حالات چل رہے ہیں۔ اب یہ صرف دو نہیں تین ایٹمی طاقتوں کا معاملہ بن کر رہ گیا ہے۔ لداخ میں گلوان وادی میں چینی فوج کے ہاتھوں ملنے والے سبق کے بعد بھارت کے فوجی حکام اور حکومتی شخصیات کی جانب سے آزادکشمیر کو چھیننے کی باتیں اب قریب قریب نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہیں اس کے باوجود کشمیر کو تقسیم کرنے والی کنٹرول لائن اس وقت بھارتی جارحیت کا اہم ہدف ہے۔ چند دن سے بٹل سیکٹر میں معصوم افراد کے زخمی ہونے کی خبریں مسلسل آرہی ہیں۔ اس کے علاوہ بھی روزانہ کسی نہ کسی سیکٹر میں بھارتی فوجیوں کی فائرنگ میں آزادکشمیر کی کسی معصوم جان کے زخمی یا گزر جانے کی خبر آتی ہے۔ ہر ایسی کارروائی کے بعد بھارتی نمائندوں کو دفتر خارجہ طلب کرکے احتجاج کیا جانا بھی اب معمول بن گیا ہے۔ اس بار بھی یہی ہورہا ہے، فائرنگ کے ہر واقعے کے بعد اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمیشن کے کسی نمائندے کو طلب کرکے احتجاجی مراسلہ تھمایا جارہا ہے۔
ایک تو کورونا کی وبا نے معمولات زندگی درہم برہم کر دیے ہیں اوپر سے آزادکشمیر میں آٹھ انتخابی حلقوں میں بھارتی فائرنگ اور کشیدہ صورت حال نے لوگوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ فائرنگ کی زد میں آنے والے یہ علاقے بہترین سیاحتی مقامات بھی ہیں۔ ان میں آزادکشمیر کی جنت نظیر وادیاں نیلم اور لیپا بھی شامل ہیں۔ جہاں اس موسم میں سیاحوں کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ لگ جانا معمول بن کر رہ گیا تھا مگرکورونا کے بعد بھارتی فائرنگ نے ان علاقوں کی ویرانی اور اُداسی بڑھا دی ہے۔ بھارتی فائرنگ، ہمارا نقصان اور اس کے ساتھ رسمی احتجاج سب کچھ معمول سا بن گیا ہے مگر اس سے کنٹرول لائن پر بسنے والوں کے مصائب اور دکھ کم نہیں ہوتے۔ کنٹرول لائن کے عوام نے ہر دور میں پاک بھارت جنگوں اور کشیدگی کی قیمت چکائی ہے مگر 1988 میں کشمیر میں شروع ہونے والی مسلح تحریک کے بعد کنٹرول لائن ایسی بھڑک اُٹھی کہ دوبارہ کبھی ٹھنڈی نہ ہوسکی سوائے جنرل مشرف کے دور میں 2003 میں ہونے والی جنگ بندی کے جو کم وبیش ایک عشرے تک ہی چل سکی۔ جس کے بعد سے ایک اور عشرہ ہونے کو ہے کنٹرول لائن آگ اور خون کی لکیر بن کر رہ گئی ہے۔ کنٹرول لائن پر فائرنگ میں معصوم اور نہتی آبادی ہی دشمن کا نشانہ بنتی ہے۔ کنٹرول لائن کو گرم رکھنا بھارت کی سوچی سمجھی جنگی اسکیم کا حصہ ہے۔ بھارت کشمیر میں چلنے والی تحریک سے زچ ہوکر اس کا بدلہ آزادکشمیر کے عوام سے لیتا ہے۔ اس کے پیچھے جہاں بدلے کی سوچ ہوتی ہے وہیں پاکستان کے جواب کی صورت میں مقبوضہ کشمیر کے عوام کا نقصان بھی بھارت کے لیے خوشی کا باعث بنتا ہے۔ چھری خربوزے پر گرے یا خربوزہ چھری پر نقصان خربوزے ہی کا ہوتا ہے کے مصداق فائرنگ ایک طرف سے ہو یا دوسری طرف سے نقصان کشمیری مسلمان ہی کا ہوتا ہے۔ بھارت کے لیے اس میں ہینگ لگے نہ پھٹکری کا معاملہ ہے مگر پاکستان کے لیے مقبوضہ علاقے کی آبادی بھی اسی طرح اہم ہے جس طرح آزادکشمیر کی آبادی۔
اس وقت کنٹرول لائن کے قریب دس لاکھ لوگ بستے ہیں اور ان میں ایک بڑی تعداد پانچ سو میڑ کی دوری پر ہے اور اچھی خاصی تعداد کنٹرول لائن سے دو ڈھائی کلومیٹر کی دوری پر رہتی ہے۔ یہ لوگ بھارتی فوج کی آسان دسترس میں ہیں۔ بھارت کا ایک فوجی کلاشنکوف سے بھی یہاں انسانی آبادی کو نشانہ بنا سکتا ہے اور اکثر ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ بھارت کی بھاری ہتھیاروں سے ہونے والی فائرنگ میں انسانی جانیں ضائع ہوتی ہیں۔ گھر دکانیں اسکول اور اسپتال تباہ ہوتے ہیں اور مال مویشی مارے جاتے ہیں۔ یوں 340 کلو میٹر طویل کنٹرول لائن روز شعلے اگل کر ایک المناک کہانی کو جنم دیتی ہے۔ اقوم متحدہ کے فوجی مبصرین کا کردار اب اس معاملے میں نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے کیونکہ بھارت نے اپنی طرف تعینات فوجی مبصرین کو عضو معطل بنا دیا ہے۔ پاکستان اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین سے یک طرفہ تعاون کر رہا ہے کیونکہ ان مبصرین کی موجودگی کشمیر کی متنازع حیثیت کا واضح ثبوت ہے۔ ان کی موجودگی پاکستان اور کشمیریوں کے موقف کی تقویت اور بھارتی موقف کی کمزوری زندہ دلیل ہے۔ بھارتی فوج کنٹرول لائن پر عالمی قوانین اور جنگی اصولوں کی صریح نفی کرکے نہتے لوگوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔ آبادی پر توپ خانے کا استعمال کیا جانا معمول ہے۔ رائفل، اسنائپر، مارٹر سمیت عام اور معصوم شہریوں پر ہر ہتھیار استعمال بھارتی فوج کے لیے جائز بن چکا ہے۔