ہمارے مربی: ڈاکٹر حفیظ الرحمن صدیقی …1936 تا 2020

3666

یقینا ہم سب کا ایمان ہے کہ ہم اللہ ہی کے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف پلٹنا ہے۔ (اناللہ وانا الیہ راجعون) 19 جولائی 2020 کو والد صاحب اللہ کے حضور پیش ہوگئے۔ ہر اہم رشتے کے جدا ہونے پر صدمہ ہوتا ہے لیکن اس رحلت کو تمام اہل خاندان، رشتہ داروں، احباب اور دوستوں نے بہت بڑھ کر محسوس کیا اور یہاں پر اس کی وجہ والد صاحب کا سب سے وہ پرخلوص تعلق تھا جس نے سب کو اکثر غمگین رکھا۔ میرے لیے یہ بات قابل ذکر ہے کہ والد صاحب کو اللہ نے طویل زندگی دی اور ہمیں زیادہ وقت گزارنے اور استفادے کا موقع میسر آیا ابو کی پوری زندگی انتہائی سادہ، مصروف، بھرپور اور آسودہ گزری۔
نومبر 2019 سے وہ علالت کا شکار تھے اور زیر علاج رہے اس دوران میں ہماری والدہ کوثر حفیظ الرحمن، بھائی فرخ حفیظ الرحمن اور بھاوج ثمرین فرخ نے دن رات ان کی خدمت گزاری کی۔ ہم بقیہ بھائی بہن ملک سے باہر ہونے کے باعث وقتاً فوقتاً آتے رہے۔ دسمبر 2019 میں ایک رات انہوں نے ہم سب سے فرداً فرداً بشمول بہو ودامادوں سے ٹیلی فون پر بات کی اور کئی نصیحتیں کیں اور اس کو اپنی الوادعی گفتگو قرار دیا، یہ وقت بہت تکلیف دہ تھا۔ یہیں سے والد صاحب کی ذہنی صحت متاثر ہونے لگی تھی اور یہ علالت 8 ماہ جاری رہی اور جولائی 2020 میں وہ کوڈ 19 کا شکار ہونے کے باعث اسپتال میں داخل ہوئے اور 19 جولائی کو سفر آخرت پر روانہ ہوگئے۔ انتقال کے وقت چھوٹے بھائی، بہنوئی ممتازخان، منجھلے تایا زاد بھائی شفیق الرحمن و توصیف الرحمن فوراً اسپتال پہنچے اور اس کے بعد تدفین تک تمام مراحل کو انتہائی تیزرفتاری سے مکمل کیا۔ ظہر کے وقت رحلت ہوئی اور عصر میں رہائش گاہ سے قریب مسجد قبا بلاک ۳۱۔ سی گلشن اقبال میں نمازہ جنازہ اور محمد شاہ قبرستان نارتھ کراچی میں تدفین ہوئی۔
والد صاحب اپنی تعلیم مکمل ہونے کے بعد تدریس سے وابستہ ہوئے اور ریٹائرمنٹ تک اسی سے منسلک رہے یہ سلسلہ وفاقی گورنمنٹ ارود سائنس کالج کراچی میں پرنسپل کی ذمے داریاں ادا کرنے تک جاری رہا۔ ان کے بہترین مشاغل میں تعلیم، تحقیق، تصنیف کا بہت حصہ ہے وہ کئی کتابوں کے مصنف تھے اور تصنیفی موضوعات میں اسلام، تاریخ و تحریک پاکستان، سائنس، اقبال، مسلم نشاۃ ثانیہ شامل ہے اور ان میں کئی موضوعات پرکتابیں بھی شائع ہوچکی ہیں۔چند یہاں درج ذیل ہیں۔
• دنیائے اسلام میں سائنس وطب کا عروج
• پاکستان، سیاست اور اسلامی قانون /Pakistan Politics and Islamic Law
• مسلمانوں کے عروج کی کہانی
• فقاریہ و غیرفقاریہ Vertebrates & Invertebrates
اس کے ساتھ ساتھ سفرنامے، والدین پر یاداشتیں، اخبارات ورسائل میں کالم اور تحقیقی اشاعتیں بھی شامل ہیں۔ دنیا بھر میں بشمول کینڈا، ترکی، ایران اور ہندوستان میں بین الاقوامی کانفرنسوں میں مقالے پڑھے۔ امریکا، سعودی عرب، عرب امارات، انگلینڈ کے سیاحتی دورے بھی کیے اور اپنی ان علمی کاوشوں کے طفیل کئی اعزازات سے نوازے گئے۔
یہاں پر مقصود والد صاحب کی شخصیت سے رہنمائی اور نیکیوں کی ترویج ہے اس حوالے سے کچھ واقعات پیش کرتاہوں:
1۔ والد صاحب کے ہم عصر دوستوں میں جناب پروفیسر ہارون الرشید نجمی مرحوم، سابق پرنسپل جناب پروفیسر ضیا الدین محمود مرحوم، سابق پرنسپل اور ڈاکٹر وقار احمد زبیری مرحوم سابق وائس پرنسپل شامل تھے لیکن میں نے کبھی بھی ان کے حوالے سے والد صاحب کی زبان سے کوئی منفی بات نہیں سنی اور ان کے درمیان ایک بہترین اور مثالی تعلق پایا۔
2۔ شاگردوں کے ساتھ بھی تعلق بہت مثالی تھا۔ یہ شاگرد گریجویشن اور ماسٹرز کے امتحان میں کامیابی پر اپنی خوشی کا اظہار کرنے کے ہمارے گھر والد صاحب سے ملنے کے لیے آتے رہے۔
3۔ ہمارے محلے کے ایک دکاندار نے مجھے بتایا کہ ایک دفعہ وہ کسی کام سے والد صاحب سے ملنے کے لیے کالج گئے اور وہاں والد صاحب نے کرسی سے کھڑے ہوکر ان کا استقبال کیا تو اس خوش اخلاق عمل سے وہ بہت متاثر ہوئے۔
ان واقعات میں ہمارے لیے یہ پیغام ہے کہ خوش اخلاقی، محبت اور خلوص کا کوئی نعم البدل نہیں اور لوگ اس کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ والد صاحب کی بہت ساری خوبیوں میں سے ایک خوبی تمام رشتہ داروں سے پر خلوص رابطہ رکھنا تھا اور یہ سلسلہ پاکستان، ہندوستان اور دیگر ممالک میں رہائش پزیر رشتہ داروں سے برقرار تھا۔ تمام عزیز و اقارب اخلاق اور خیر خواہی کو گواہی دیتے ہیں جو ہمارے لیے قابل فخر ہے۔ یہ بھی خوش نصیبی کی بات ہے کہ ہم سب اہل خاندان کا حلقہ احباب وسیع ہونے کے باعث بڑی تعداد میں لوگ بلندی درجات اور مغفرت کیے لیے دعاگوہ ہیں۔
اللہ تعالیٰ سے التجاہ ہے کہ والد صاحب کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین