آرٹیکل 149 کے بجائے بنیادی حقوق بحال کریں

1125

آئین پاکستان ایک مشکل دستاویز ہے اس میں ترامیم کر کرکے حکمرانوںنے اسے مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ اسمبلیوں میں قانون سازی سے اگر دلچسپی نہ ہو تو کسی صوبے کے منتظم اعلیٰ یعنی وزیراعلیٰ کو بھی آئین کی شقیں سمجھ میں نہیں آتیں اور اسے پریس کانفرنس کرنی پڑتی ہے کہ آرٹیکل 149 سمجھ سے بالا ہے جسے سمجھ میں آئے مجھے بھی بتا دے۔ شاید وفاق میں زیادہ پڑھے لکھے لوگ ہوں۔ لیکن وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو آرٹیکل 149 تک پہنچنے کی ضرورت ہی نہیں ایک حکمراں کا کام ہے کہ اپنے عوام کو زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کرے آئین کے آرٹیکل 8 سے 28 تک بنیادی حقوق درج ہیں وفاقی حکومت اور وزیراعلیٰ سے گزارش ہے کہ آئین کے آرٹیکل 149 تک پہنچنے سے قبل آئین کے 8 سے 28 تک کے آرٹیکل ملاحظہ فرمالیں۔ آرٹیکل 8 بہت واضح طور پر درج ہے کہ مملکت کوئی ایسا قانون نہیں بنائے گی جو شہریوں کے بنیادی حقوق کے منافی ہو۔ وزیر اعظم، وزیراعلیٰ سندھ، گورنر صاحبان کیا یہ بتا سکتے ہیں کہ وفاق اور صوبے آئین کے آرٹیکل 8 کی خلاف ورزی کے مرتکب کیوں ہورہے ہیں بنیادی حقوق کے منافی قوانین بناکر لوگوں پر جبر کیوں کیا جارہا ہے۔ آئین کہتا ہے کہ بنیادی حقوق سے متصادم ہر قانون کو کالعدم تصور کیا جائے گا اور ہماری پارلیمنٹ نیشنل سیکورٹی کے نام پر عوام کے بنیادی حقوق کے منافی قوانین منظور کرتی ہے۔ عارضی طور پر نافذ کیا جانے والا قانون اب مسلسل نافذ ہے۔ آئین کا آرٹیکل 9 کہتاہے کہ کسی بھی شخص کو اس کے حق زندگی یا آزادی سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ آرٹیکل 10 کہتا ہے کہ ملزم کو بھی ضروری تحفظ دیا جائے۔ کسی بھی شخص کوکسی الزام میں گرفتار کیا جائے تو اسے گرفتاری کی وجوہات سے آگاہ کرنا ریاست کی ذمہ اری ہے اور اسے اپنی مرضی کا وکیل کرنے کا آئینی حق بھی حاصل ہے۔ ابھی آرٹیکل 149 دور ہے۔ آرٹیکل 11 کی بات کرلیتے ہیں جس میں لوگوں کو غلام بنانے اور جبری مشقت اور انسانوں کی خرید و فروخت بھی ممنوع ہے لیکن کیا پورے ملک میں اس پر عمل ہورہا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ کے علم میں تو ہوگا کہ سندھ میں کتنی نجی جیلیں ان کے وڈیروں نے بنا رکھی ہیں۔ کتنے ہاریوں سے بیگار لی جاتی ہے اور اس جدید دور میں انسانوں کی خرید و فروخت بھی ہورہی ہے مراد علی شاہ صاحب آرٹیکل 149تو دور ہے آرٹیکل 11 کہتا ہے چودہ سال سے کم عمر بچے کو کسی کارخانے میں یا پرخطر ملازمت پر نہیں رکھا جاسکتا۔ لیکن حکومتی پالیسیوں کے سبب دس دس سال کے ہزاروں بچے فیکٹریوں، مکینکوں اور بازاروں میں پنکچر والوں کے پاس ٹھیلوں ہر جگہ پر ملازمت کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ ان کے بڑوں کا روزگار بھی محفوظ نہیں ایک اور سنگین مسئلہ آرٹیکل چودہ میں بتا دیا گیا کہ پولیس کو کسی قانونی اختیار کے بغیر کسی کے گھر میں گھسنے کی اجازت نہیں حوگی یعنی چادر اور چار دیواری کا تحفظ۔ لیکن سیاسی مخالفین پولیس کے نشانے پر موجود لوگ، اور کوئی بھی شخص جس کو پولیس ملزم تصور کرتی ہو اس کے گھر میں راتوں کو دروازے توڑ کر یا دیوار پھاند کر گھس جاتی ہے۔ کسی وارنٹ کے بغیر اٹھا کر لے جاتی ہے اور کوئی جرم اور جگہ نہیں بتائی جاتی کہ اسے کہاں لے جایاگیا ہے۔ یہ سارے کام رائو انوار کرتے تھے اور سی ٹی ڈی والے اب بھی کررہے ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ ابھی آرٹیکل 149 کا بیان نہیں بات ابھی آرٹیکل 25 کی بات کرتے ہیںجس کے مطابق ہر شہری بلا لحاظ رنگ و نسل مساوی قانونی تحفظ حاصل ہے۔ لیکن کیا ایسا ہے۔ حکمرانوں اور بڑے لوگوں کے لیے قانون الگ سے غریب اور عام شہری کے لیے قانون الگ… یہاں تک کہ عدالت میں بھی 150 لوگوں کے قتل کے ملزم کے بارے میں پوچھا جاتا ہے کہ فلاں صاحب آگئے ہیں۔ کسی عام آدمی یا تعلیم یافتہ شخص کے ساتھ تو اس قدر احترام کا معاملہ نہیں ہوتا۔ ہزاروں لوگ گھروں سے اٹھا کر غائب کر دیے گئے ہیں کسی کو ان کا پتا نہیں یہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے … اب وزیراعلیٰ کے شکوے کی طرف بھی آجاتے ہیں وفاق کی جانب سے آرٹیکل 149 کی بات کیوں آئی اس کا سبب یہی تو ہے کہ صوبائی حکومت لوگوں کو بنیادی ضروریات ان کے بنیادی حقوق کی فراہمی میں نہ صرف ناکام رہی ہے بلکہ ایسے ایسے قانون ایجاد کر لیے کہ لوگوں کے تحفظ کے نام پر لوگوں کا کاروبار تباہ کر دیا گیا۔ لاک ڈائون کے نام پر چار ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزار دیا گیا۔ یہ لاک ڈائون چودہ یا اکیس دن کا ہوتا تو کب کا مسئلہ حل ہو گیا ہوتا لیکن وزیراعلیٰ صاحب لاک ڈائون کے نتیجے میں سب سے زیادہ کمائی سرکاری افسروں اور اداروں کی ہوئی ہے۔ فیکٹری کھولنے کا ریٹ الگ، بیکری اور عام دکان کھلوانے کا الگ، ٹھیلے، رکشہ، بس، ٹرک، پانی کے ٹینکروالوں سے الگ وصولی، سات بجے تک لاک ڈائون ہے ۔چھ بجے چھاپا مار کر دکان بند کر دی اور جس کو چاہا لے گئے، پھر ہزاروں روپے وصول کرکے چھوڑا۔ شہری سہولیات ناپید بارش میں بجلی بھی بند اور سڑکوں سے بڑھ کر اب گھروں میں پانی داخل ہوتا ہے۔ یہ بات سب سمجھتے ہیں کہ وفاق کو بھی عوام کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اسے بھی سندھ کی حکومت اور کراچی کی بلدیہ فتح کرنا ہے۔اسی لیے فوج کو یہاںلگا دیا۔ ورنہ فوج کی ضرورت تو کشمیر میں ہے جس کے لیے صرف گانے اور یوم منانے پر اکتفا کیا جا رہا ہے ۔ اب فوج کو بلوا کر حکومتوں نے با قاعدہ اپنی ناکامی تسلیم کر لی ہے پھر بھی دعویٰ جمہوریت اور عوامی نماندگی کا ہے ۔