نیدر لینڈ میں مسلمانوں کیخلاف تشدد اور امتیاز میں اضافہ

392

ایمسٹرڈیم (انٹرنیشنل ڈیسک) نیدرلینڈ میں برقع پر پابندی کو ایک سال مکمل ہوگیا، جب کہ اس دوران اس یورپی ملک میں رہایش پذیر مسلمان برادری کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے خلاف امتیازی رویوں اور تشدد میں اضافہ محسوس کیا ہے۔مقامی خواتین کا کہنا ہے کہ برقع پہننے والوں کو ’’دشمن‘‘ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ یہ سلوک انہیں تنہائی کا احساس دلاتا ہے، جیسے انہیں دیوار سے لگایا جا رہا ہو۔ یہ نا انصافی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں امتیازی سلوک کا سامنا صرف ان کے مذہب اور انتخاب کی وجہ سے ہے۔ نیدرلینڈ میں گزشتہ برس یکم اگست کو برقع پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ فرانس اور بلجیم میں بھی چہرہ مکمل ڈھانپنے یا برقع پر پابندیاں نافذ ہیں، مگر نیدرلینڈ میں متعارف کردہ پابندی ذرا مختلف ہے۔ نیدرلینڈ میں پبلک ٹرانسپورٹ، سرکاری دفاتر، اسکولوں اور اسپتالوں میں برقع پہننا منع ہے، مگر عوامی مقامات و سڑکوں پر برقع پہننے میں کوئی حرج نہیں۔ نیدرلینڈ میں عوام کی سلامتی کا معاملہ کھڑا کر کے برقع پر پابندی کی تحریک 14 برس قبل سے جاری تھی۔ اس مہم کو انتہائی دائیں بازو کی اسلام مخالف تنظیم پارٹی فار فریڈم کے رہنما گیئرٹ ولڈرز نے شروع کیا تھا۔ یکم اگست 2019ء سے عائد قانون کے تحت چہرے کا نقاب نہ ہٹانے یا حکام کے ساتھ تعاون نہ کرنے پر 150 سے 450 یورو کا جرمانہ ہے۔ ڈچ پولیس کے مطابق اب تک شاذ و نادر ہی کسی پر یہ جرمانہ عائد کیا گیا ہے۔ مسلمان خواتین کا دعویٰ ہے کہ اگرچہ عوامی مقامات پر برقع پہننے کے اجازت ہے، مگر لوگ پہلے کے مقابلے میں زیادہ جارحانہ رویہ اختیار کرتے جا رہے ہیں۔