سرینگر کی منزل کیسے ملے گی؟

741

گزشتہ جمعہ کو عید الاضحی سے ایک دن پہلے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کشمیر کے حوالے سے بڑا گرما گرم بیان دیا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ حکمرانوں کے ایمان بھی تازہ ہو گئے ہوں گے ۔ وزیر خارجہ نے اعلان کیا کہ پاکستان کی منزل سری نگر ہے اور سری نگر کی جس مسجد میںتالے پڑے ہیں اس میں مل کر نماز شکرانہ ادا کریں گے ، کشمیر ہائی وے کا نام سرینگر ہائی وے کر دیا جائے گا ۔ علاوہ ازیں5اگست یوم استحصال کشمیر کے طور پر منایا جائے گا ۔ وزیر خارجہ محمود قریشی نے جن عزائم کا اظہار کیا ہے وہ ہرپاکستانی اور کشمیری کے دل کی آواز ہے ۔ لیکن ایسے بیانات تو پہلے بھی دیے جا چکے ہیں ۔ مگر یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ کیا بیانات کے ذریعے کشمیر کو بھارتی چنگل سے آزاد کرایا جا سکتا ہے اور کیا کشمیر ہائی وے کا نام سرینگر ہائی وے کر دینے سے سرینگر تک پہنچنا ممکن ہو جائے گا؟ مشترکہ پریس کانفرنس میںدو اور وزراء شبلی فراز اورمعید یوسف بھی بولے ہیں اور صاف انتباہ کر دیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر پر بھارت کا قبضہ مزید برداشت نہیںکیا جائے گا ، بھارت عالمی سطح پر تنہا ہو گیا ہے ۔ شاید ایسا ہی ہو ، ابھی تو بھارت نے فرانس سے لڑاکا طیارے حاصل کر کے چین کو آنکھیں دکھانا شروع کر دی ہیں ۔ شاید یہ کہنا بھی صحیح ہو کہ شائننگ انڈیا برننگ انڈیا بن گیا ہے اور اس آگ میںمسلمان جلائے جا رہے ہیں ۔ لیکن کیا5اگست کو حکومت پاکستان کی طرف سے یوم استحصال کشمیر منانے سے کشمیر آزاد ہو جائے گا؟ کیا کشمیریوں کی الگ شناخت ختم کر دی جائے گی؟ سرینگر کی جس مسجد میں تالے پڑے ہیں اس میںمل کر نماز شکرانہ ادا کریں گے ۔ لیکن عید الاضحی پر تو مسلمانوں پر تمام مسجدیں بندکردی گئیں ، کہاں کہاں مل کر نماز پڑھیں گے ۔ اس کے لیے سرینگر کو فتح کرنا ہو گا جو کشمیر ہائی وے کا نام بدلنے سے نہیں ہو سکتا ۔ وزراء نے مشترکہ پریس کانفرنس میں بڑی’’ دلچسپ‘‘ بات کی ہے کہ’’کشمیری لیڈ کریں،ہم پیچھے کھڑے ہیں۔‘‘ یعنی سچ اچھا پر سچ کے لیے کوئی اور مرے تو اور اچھا۔ تاریخ میں یہ بھی ہوا ہے کہ پیچھے کھڑے ہونے والے وقت پڑنے پر پیچھے ہی سے نکل لیتے ہیں ۔ پاکستان کے حکمراں جب بڑی بڑی باتیں بنا رہے ہیں تو یہ کیوں نہیں کہتے کہ ہم لیڈ کریں گے ۔ لیکن اس کے لیے بڑی جرأت کی ضرورت ہے ۔کہا گیا کہ کشمیری جھکیں گے نہ پاکستانی افواج پیچھے ہٹیں گی ۔ بلا شبہ کشمیری تو1989ء سے اپنی آزادی اور بھارت سے نجات کے لیے مسلح جدو جہد کر رہے ہیں ۔ ہزاروں ، لاکھوں کشمیری اس مقصد کے حصول کے لیے اپنی جانیں قربان کر چکے ہیں لیکن یہ کہنا کہ پاکستانی افواج پیچھے نہیں ہٹیں گی ، کیا محض ایک لطیفہ نہیں۔ پاکستانی افواج کہاں سے پیچھے نہیں ہٹیں گی؟ کیا وہ کشمیرمیں داخل ہیں یا صرف کنٹرول لائن پر کھڑی ہیںجہاں بھارتی فوج فائرنگ کر کے کئی افراد کو شہید کر دیتی ہے ،متعدد کو زخمی کر دیتی ہے اور کنٹرول لائن پر کشمیریوں کے مکانات تباہ کر رہی ہے ۔ پاکستان اسی میں خوش ہے کہ امن کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے اورکنٹرول لائن کی خلاف ورزیوں پر بھارتی سفارتکارکو طلب کر کے احتجاجی مراسلہ تھما کر چائے پلا کے رُخصت کر دیا جاتا ہے ۔ ہمارے وزراء ذرا وضاحت کر دیں کہ پاک فوج کہاں پہنچی ہوئی ہے جہاں سے وہ پیچھے نہیں ہٹے گی ۔ عجیب بات ہے کہ جب جماعت اسلامی کے رہنمائوں نے لال قلعہ پر جھنڈا لہرانے کا اعلان کیا تھا تو تھڑرلے اور بزدل سیاست دان کانپ گئے تھے اور مذاق بھی اُڑایا تھا ۔ مختلف جماعتوں سے تعلق رکھنے والے یہ سیاست کار کم و بیش اب پی ٹی آئی میں ہیں اور وزیر خارجہ کہہ رہا ہے کہ پاکستان کی منزل سرینگر ہے ۔ ایسا ہی ہونا چاہیے لیکن اس کے لیے اقدامات تو نظر نہیں آ رہے ۔ اس سے پہلے عمران خان نے کشمیر کے لیے ہر جمعہ کو آدھا گھنٹے کالی پٹیاں باندھ کر مساجد کے سامنے مظاہرہ کرنے کا اعلان کیا تھا ۔ گو کہ اس سے بھارت میں تھر تھری تو نہ پیدا ہوئی لیکن یہ کام بھی چند دن بعد بھلا دیا گیا ۔ 5اگست کو ایک منٹ خاموشی کی تجویز ہے ۔خاموش تو کب سے ہیں ، اس موقع پر تو بولنے کی ضرورت ہے ۔ تاہم پاکستان کے حکمران کشمیر کو آزاد کرانے کے لیے چندآسان آسان سے کام کر گزریں گے ۔