بارش کی تباہ کاریاں یا قاتلانہ غفلتیں

530

افسوس بارش کی تباہ کاریوں پر بھی نہیں اور گلہ قاتلانہ حکومتی غفلت پر بھی کم ہے لیکن جس انداز میں میڈیا نے کراچی کی تباہ کاریوں کی وہ رپورٹنگ نہیں کی جس پیمانے پر بارش نے تباہی مچائی اس پر جتنا بھی سر پیٹا جائے وہ کم ہے۔ مجھے وہ دن کبھی بھول کر نہیں دیتے جب بارش کا پہلا قطرہ گرتے ہی پاکستان کے سارے نجی چینل جاگ جاتے تھے اور کوئی ایک چینل بھی ایسا نظر نہیں آیا کرتا تھا جس پر بیٹھنے والے مبصرین، تجزیہ نگار، نقاد، سیاسی و سماجی پارٹیوں، اور سارے ٹی اینکرز کے منہ سے جھاگ نہیں بہہ رہے ہوتے تھے اور وہ سب کراچی کی اکثریتی پارٹی کے بخیہ ادھیڑنے میں مصروف ہوجایا کرتے تھے جبکہ پندرہ پندرہ دنوں تک جاری رہنے والی بارشوں نے وہ مناظر کبھی پیش نہیں کیے تھے جو کل یا اس سے چند دن پہلے ہونے والی بارش کے نتیجے میں کراچی میں رہنے والوں کی گناہگار آنکھوں نے دیکھے۔ یہ بھی نہیں کہ کوئی چینل بارش کی تباہ کاریوں کو نہیں دکھا رہا یا حکومتی یا یہاں کی اکثریتی پارٹی کو آڑے ہاتھوں نہیں لے رہا لیکن گزشتہ ادوار کے سارے پروگرام، اس میں استعمال ہونے والی زبان، مہمانوں اور میزبانوں کے لب و لہجے اور دشنام طرازیوں کا تجزیہ کیا جائے تو ان میں وہی فرق نظر آئے گا جو زمین اور آسمان کی بلندیوں کے درمیان ہے جبکہ غفلتوں اور تباہ کاریوں میں کئی سو گنا کا فرق پورے پاکستان کے سامنے ہے۔
میں عموماً ’’پورا پاکستان‘‘ کے الفاظ استعمال کرتا ہوں جو اکثر افراد کے لیے یقینا تکلیف دہ ہوتا ہوگا لیکن کوئی مجھے یہ بھی تو سمجھائے کہ جب ہر قسم کے ظلم، زیادتی، امتیازی سلوک اور ریاستی کارروائیوں کے خلاف پاکستان کے کسی بھی کونے، کسی ایک بھی سیاسی پارٹی، مذہبی گروہ اور کسی بھی ادارے کی جانب سے کبھی کوئی مخالف تجزیہ سامنے نہیں آئے گا تو پھر ’’پورا پاکستان‘‘ کس کو کہا جائے جبکہ پاکستان میں کسی بھی قسم کا آپریشن ہو، جہادی دہشت گردوں کے خلاف بمباریاں کی جا رہی ہوں، کسی سیاسی یا مذہبی پارٹی کو کچلنے جیسی کارروائیاں ہو رہی ہوں یا ملک میں کسی غیرآئینی انقلاب کی آوازیں بلند ہو رہی ہوں تو جہاں ان اقدامات کی حمایت میں بیشمار آوازیں بلند ہو رہی ہوتی ہیں وہیں لاکھوں آوازیں ایسے اقدامات کی مخالفت میں بھی سنائی دے رہی ہوتی ہیں۔ یہ بات اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ ’’پورا پاکستان‘‘ کبھی کسی کا مخالف یا کبھی کسی کی حمایت میں کھڑا نظر نہیں آتا جبکہ کوٹا سسٹم جیسے ظالمانہ اور امتیازی قانون سے لیکر ریاستی آپریشنوں میں کبھی پاکستان کے کسی کونے سے کوئی ایک آواز بھی مخالفت میں گونجتی سنائی نہیں دیتی۔
خبر میں کہا جا رہا ہے کہ ’’کراچی میں اتوار کو ڈھائی گھنٹے کی تیز بارش سے خوفناک صورتحال ہوگئی۔ سڑکیں زیر آب آنے کے بعد بارش کا پانی گھروں میں داخل ہوگیا‘‘۔ خبر کے یہ ابتدائی جملے ہی حقائق کے بر خلاف ہیں کیونکہ بارش کے پانی کا ایک قطرہ بھی گھروں میں داخل نہیں ہوا اور نہ ہی آسمان طوفان نوح بن کر ٹوٹا۔ گھر میں داخل ہونے والا، سیکڑوں قیمتی گاڑیوں، موٹر سائیکلوں، دکانوں کے کھربوں روپوں کے ساز و سامان کو بہانے، تباہ و برباد کرنے اور انسانی جانوں کو نقصان پہنچانے والا سارے کا سارا پانی ان گٹروں اور نالوں کا تھا حکومت سندھ اور بلدیاتی نظام پر قابض مافیا کی مجرمانہ اور قاتلانہ غفلت کی وجہ سے ان کی بر وقت صفائی نہ کرانے کے نتیجے میں فواروں کی شکل میں اُبل اُبل کر ان سے باہر نکل کر دنیا کے غلیظ ترین نظارے پیش کررہا تھا۔ ایک جانب بارش نے شہر میں تباہی مچائی ہوئی تھی تو دوسرے جانب پی پی پی ’’نیرو‘‘ کی شکل میں بانسری بجاتے ہوئے نہ جانے کس ’’غم‘‘ میں کیک کاٹنے میں مصروف عمل تھی۔
ٹی وی پر جتنے بھی مناظر دکھائے گئے وہ سارے کے سارے نہایت احتیاط کے ساتھ دکھائے گئے تاکہ صاحبان اقتدار، کراچی کی موجودہ جعلی اکثریتی پارٹی اور اقتدار پر براجمان ناجائز مافیا کی کلاہ افتخار کج نہ ہوجائے۔ اگر سوشل میڈیا نہ ہوتا تو شاید کراچی کی ساری سڑکیں چمچماتی دکھا کر ہر گروہِ قاتل اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتا ہوا نظر آتا۔ کہا جا رہا ہے کہ کراچی ڈوب رہا ہے، یہ ماننے کے لیے کوئی تیار نہیں کہ کراچی کو جان بوجھ کر ڈبویا جا رہا ہے۔ وہی باپ جو پورے پاکستان کا پیٹ پالتا ہے اسی باپ کے پیٹ پر لاتیں رسید کی جا رہی ہیں لیکن ’’پورا پاکستان‘‘ اس لیے خاموش ہے کہ یہاں کے افراد بڑھاپے میں اپنے ضعیف والدین کے ساتھ اس سے بھی بھیانک سلوک کرتے ہیں اور پاکستان کی کوئی عدالت بھی ایسی سفاک اولاد کے خلاف کوئی از خود نوٹس نہیں لیا کرتی۔ اب تو بس ایسا لگ رہا ہے کہ زمین کے بجائے آسمان ہی سے کچھ فیصلے ہوں گے تو اہل کراچی کی مشکلیں آسان ہوں گی ورنہ شاید قیامت تک مجرمانہ غفلتوں، ظالمانہ اقدامات اور امتیازی سلوک کا چل نکلنے والا سلسلہ جاری رہے گا اور یہاں کے باسی اسی طرح کچھ موسم اور کچھ ظلم و ستم کے حبس کے ہاتھوں گھٹ گھٹ کر مرجائیں گے۔