حج کا پیغام اور امت کا رویہ

676

ہر سال عربی میں حج کا خطبہ حاجیوں کے لیے اور ساری دنیا میں اس کا ترجمہ ٹی وی کے ذریعے سنایا جاتا ہے۔ اس سال حج اور خطبۂ حج یوں بھی غیر معمولی تھا کہ حاجیوں کی تعداد اور عالمی وبا کے سبب نہ ہونے کے برابر تھی اور امام کعبہ نے اپنے خطبے میں اس جانب توجہ بھی دلائی کہ عالمی وبا اللہ کی آزمائش ہے لیکن امید بھی دلائی ہے کہ ہر مشکل کے بعد آسانی ہے۔ امام کعبہ نے اپنے خطبے میں پوری امت مسلمہ کو متوجہ کیا کہ سود اور یتیم کا مال کھانا حرام ہے۔ کسی کا حق نہیں مارنا چاہیے۔ انہوں نے تاجروں پر زور دیا کہ ایک دوسرے سے تعاون کریں۔ ایک عام مسئلہ ہے جو معاشرے کی اصلاح کے لیے بھی لوگوں کو بتایا جاتا ہے اور دین کا حکم ہے کہ دو گروہوں میں لڑائی ہو جائے یا اختلاف ہو جائے تو ثالث بن کر اسے ختم کرائیں۔ امت مسلمہ ہر قسم کی بدعت اور خرافات سے دور رہے۔ انہوں نے توجہ دلائی کہ مسائل و مصائب اور مشکلات میں تو سب ہی اللہ سے رجوع کرتے ہیں۔ امت مسلمہ جن حالات سے گزر رہی ہے ان حالات میں تو رجوع الی اللہ ناگزیر ہے۔ اس کی رحمت کے دروازے کھلے ہیں۔ اللہ نے ایسی کوئی بیماری نہیں دی جس کا علاج نہ ہو۔ امام حج ہر سال یہی کام کرتے ہیں عوام کو اللہ اور اس کے رسولؐ کے احکامات سے واقف کراتے ہیں، عمل پر ابھارتے ہیں اور اپنے اختیارات اور حالات کے مطابق ڈراتے بھی ہیں۔ لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ امت مسلمہ کے حالات دن پر دن خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ امام کعبہ سود اور یتیم کا مال کھانے کے بارے میں اللہ کا حکم بتا رہے ہیں کہ یہ حرام ہے لیکن ہمارے حکمران اور عوام بھی ان دونوں کاموں میں لگے ہوئے ہیں۔ بعض تو ایسے ہیں کہ ڈھٹائی کے ساتھ سود کے حق میں عدالت میں کھڑے ہیں۔ جہاں تک عالمی وبا کا تعلق ہے تو ہمارے حکمرانوں نے اللہ کی اس آزمائش کو کمائی کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ عوام کے لیے یہ آزمائش تھی اور اسے مزید سخت کر دیا گیا۔ لاک ڈائون کو مذاق بنا دیا گیا۔ پاکستان میں تو وبا کی آڑ میں عوام کو برباد کر دیا گیا ہے بلکہ وبا کو ہمارے حکمرانوں نے آزمائش کے بجائے عالمی اداروں کی ہدایت سمجھا اور اسی طرح ردعمل بھی ظاہر کیا ہے۔ وبا کے نتیجے میں جو معاشی بدحالی ہوئی ہے اس حوالے سے امام کعبہ نے تاجروں کو درست توجہ دلائی ہے کہ ایک دوسرے سے تعاون کریں۔ قرآن نے تو بتایا کہ ’’اکثر شرکاء ایک دوسرے سے زیادتی کرتے ہیں۔‘‘ لیکن مومن تو بھائی بھائی ہیں۔ اہل ایمان کے دو گروہوں میں لڑائی یا اختلاف کی صورت میں ثالث بن کر اسے ختم کرانے کا حکم قرآن نے دیا ہے لیکن یہاں صورتحال یہ ہے کہ ایران سعودی عرب سے، افغانستان پاکستان سے، سعودی عرب ایران اور یمن سے اور شام میں تو پتا ہی نہیں چل رہا کہ کون کس سے لڑ رہا ہے لیکن تباہی ملک اور عوام کی ہو رہی ہے جو مسلمان ہیں۔ مسلمانوں کی املاک تباہ ہو رہی ہیں۔ جب 34 ملکی فوج بنے گی تو ثالثی کیسے ہوگی۔ جب یمن میں ایرانی جرنیل برسرپیکار ہوگا تو جواب کیوں نہ دیا جائے گا۔ لیبیا میں بھی مسلمان ملک ہی استعمال ہو رہے ہیں اور پاکستان بھی تیر کھا کے دیکھتا ہے تو اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوتی ہے۔ جب امت مسلمہ کے اہم ممالک امت کے وسائل آپس کے اختلافات کو جنگوں کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کریں گے تو اللہ کی رحمت کے دروازے کھلنے کی توقع کیسے کر سکتے ہیں اور اسی کا علاج امام کعبہ نے بتایا ہے کہ رجوع الی اللہ ناگزیر ہے۔ جب تک اللہ کی طرف نہیں پلٹیں گے ہمارے حالات نہیں بدلیں گے اور اللہ کی طرف پلٹنا محض زبانی دعائوں اور چند آنسو ٹپکانے کا نام نہیں بلکہ ہر اس چیز کو چھوڑ کر اللہ کے حکم کی طرف واپس آنا اس کے احکامات پر عمل کرنا اور باقی زندگی اس کے رسولؐ کے حکم کے مطابق گزارنے کا نام رجوع ہے۔ لیکن یہاں معاملہ ہی کچھ اور ہے۔ وبا پھیلی تو عالمی اداروں سے رجوع کر لیا۔ جنگ ہوئی تو بڑی طاقتوں سے رجوع کر لیا، پیسے ختم ہو گئے تو آئی ایم ایف کے پاس چلے گئے۔ رجوع الی اللہ کب ہوا۔ آج پاکستان اور بہت سے ممالک میں عیدالاضحیٰ منائی جا رہی ہے اور 9 سے 13 ذی الحج کی عصر تک مسلمان ایک تکبیر با آواز بلند ادا کرتے ہیں جس میں اللہ کی کبریائی، اس کے سوا کسی معبود کے نہ ہونے کا برملا اعلان، اس کی بڑائی اور اسی کے لیے حمد کا اعلان ہے۔ لیکن کیا ہمارے حکمران اور عمومی طور پر امت مسلمہ کے عوام ایسے کام کر رہے ہیں۔ صرف دس ہزار افراد کا حج، ہماری ڈوریں عالمی استعمار کے ہاتھ میں آنے اور معاشی و معاشرتی تباہی کے باوجود بھی اگر ہم اللہ کی طرف نہیں پلٹے تو اللہ نے بہت واضح فیصلہ سنا دیا ہے کہ اگر تمہیں دنیا مرغوب اور پسند ہے تو اللہ کے فیصلے کا انتظار کرو… فیصلہ نظر بھی آنے لگا ہے۔