عید الاضحی: عظمت اور مسنون اعمال

411

مفتی محمد صادق حسین قاسمی

اسلام میں اللہ تعالی نے دو عیدیں رکھی ہیں۔ ایک عید الفطر دوسری عید الاضحی۔ اسلام میں عید کی ابتدا اس وقت سے ہوئی جب نبی کریمؐ مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کرکے تشریف لائے، آپؐ نے دیکھا کہ یہاں کے لوگ نیروز اور مہرجان کے نام سے دو خوشی کے دن اور تہوار مناتے ہیں، صحابہ نے عرض کیا کہ اس میں شرکت کی جاسکتی ہے؟ تو آپؐ نے فرمایا کہ: وقد ابدلکم اللہ بھما خیرا منھما: یوم النحر ویوم الفطر۔ (نسائی:1544) اللہ تعالی نے تمہارے لیے اس کے بدلے ان سے بہتر دودن عنایت فرمائے ہیں، ایک عید الفطر اور دوسرا عید الاضحی۔ دو عیدوں کا بھی خاص پس منظر ہے، عید الفطر رمضان کے تیس روزے رکھنے کے بعد بطور انعام و اجر کے لیے ہے جس میں مسلسل ایک مہینے تک حکم الہی کے مطابق چلنے والے بندوں کو انعام اور مغفرت سے نوازا جاتا ہے۔ عید الاضحی حج جیسے عظیم فریضہ کی تکمیل کے موقع احسان ِ خداوندی کا دن ہے۔ ساری دنیا میں مسلمان اپنی حیثیت کے مطابق جانور ذبح کرکے اللہ تعالی کے حکم کی اہمیت اور اس کی عظمت کا ثبوت دیتے ہیں۔ جانور کی قربانی بھی ایک تاریخی پس منظر رکھتی ہے کہ اس روئے زمین پر اللہ کے وفادار بندے حضرت ابراہیم ؑ نے اشارہ ٔ غیبی پاکر اپنے اکلوتے فرزند حضرت اسماعیل ؑ کو قربان کرنے تیار ہوگئے۔ اللہ تعالی کو ان کی یہ ادا اور عمل اس قدر پسند آیا کہ قیامت تک آنے والے ایمان والوں کو حکم دے کیا کہ اگر وہ صاحب حیثیت ہے تو قربانی ضرور دے، اور فداکاری کا نمونہ پیش کرے۔ حضرت اسماعیل جب چلنے پھرنے اور والد حضرت ابراہیم ؑ کا ساتھ دینے کے لائق ہوگئے، تقریبا 13 سال کی عمر کو پہنچ گئے(روح المعانی)اور ماں باپ کے لیے ایک سہارا بن کر ابھرنے لگے اسی دوران میں پہلے دن حضرت ابراہیم ؑ نے خواب دیکھا کہ وہ اپنے فرزند کو ذبح کررہے ہیں، صبح اٹھے تو بڑی تشویش ہوئی اور تذبذب کا شکار رہے، دوسرے دن بھی اسی طرح دکھائی دیا، اب آپ سمجھ گئے کہ انبیاء کے خواب جھوٹے نہیں ہوتے، یہی اللہ کا حکم ہے، صبح بیدار ہوئے تو حقیقت سمجھ میں آگئی تھی، اس خواب کا تذکرہ کرنے آپ اسماعیلؑ کے پاس آئے اور اپنے خواب کو بیان کیا۔ جیسا اطاعت گزار باپ تھا ویسا فرماں بردار بیٹا بھی، حضرت اسماعیل ؑ نے فرمایا: اباجان! آپ کو جوبھی حکم دیا جارہا ہے آپ اس کو پورا کیجیے ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔ (الصافات) خواب کے پہلے دن کو یوم الترویہ (تذبذب کا دن) دوسرے دن کو یوم العرفہ (پہچان لینے کادن) اور تیسرے دن جس میں قربانی کے لیے دونوں نکلے یوم النحر (قربانی کادن) کہا جاتا ہے۔ (الجامع لاحکام القران للقرطبی) جب سیدنا ابراہیم ؑ اور اسماعیل ؑ نے حکم خدا کو پورا کرنے کا کام انجام دیدیا، بالآخر اللہ تعالی نے اپنے خلیل کواس موقع پر بھی کامیاب دیکھا اور محبت الہی میں سرشار پایا تو آواز دی۔ ترجمہ: ’’اور ہم نے آواز دی کہ: اے ابراہیم! تم نے خواب کو سچ کردکھایا۔ یقینا ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح صلہ دیتے ہیں۔ یقینا یہ ایک کھلا ہوا امتحان تھا۔ اور ہم نے ایک عظیم ذبیحہ کا فدیہ دے کر اس بچے کو بچالیا۔ اور جو ان کے بعد آئے، ان میں یہ روایت قائم کی (کہ وہ یہ کہا کریں کہ:) سلام ہوا براہیم پر‘‘۔ (الصافات:104۔ 109) حضرت ابراہیم ؑ اس عظیم اور حیر انگیز امتحان میں کامیاب ہوگئے، وفا شعار بیٹے نے حکم خدا کو پوراکرنے میں باپ کا مکمل ساتھ دیا۔ باپ اور بیٹے کی یہ ادائیں اور اطاعت اللہ تعالی کو اس قدر پسند آئیں کہ تاقیامت قربانی کے عمل کو مسلمانوں میں جاری کردیا اور جانور کی قربانی کو انجام دینے کا تاکیدی حکم بیان کردیا۔ بہرحال یہ بقر عید کا پس منظر ہے۔ اسلامی عیدوں کا بڑا عجیب و غریب امتیاز ہے، عید خوشی و مسرت کا دن ہے اور لوگ عموما خوشی کے دن حدود سے تجاوز کرجاتے ہیں، اگر ہم دیگر مذاہب کی عیدوں کو دیکھیں تو صاف نظر آئے گا کہ ان کی عیدیں کوئی خاص پیغام لے کر نہیں آتی، اور نہ ہی ان کو حدود و دائرے میں رہنے کی تلقین کرتی ہیں۔ اس کے برخلاف اسلام میں جو دو عیدیں ہیں یہ اپنی انفرادیت اور خصوصی تعلیمات کی بنا بڑی نرالی ہیں۔ ہر دو عید میں مسلمانوں کو خاص ہدایتیں دی گئیں، انعام و اجر کے وعدے کیے گئے، خالق ومالک کی مرضیات پر چلنے اور پوری زندگی گزارنے کی تعلیم د ی گئی۔ چناں چہ ذیل میں عید الاضحی کے مسنون اعمال ذکر کیے جاتے ہیں:
مسنون اعمال:
٭غسل کرنا۔ ٭مسواک کرنا۔ ٭ حسب طاقت عمدہ کپڑے پہننا چاہیے نئے ہو یا دھلے ہوئے ہو۔ ٭خوشبو لگانا۔ (بدائع الصنائع)
عید گاہ جلد جانے کی کوشش کرنا:
٭نماز عید کے لیے عید گاہ جلد جانے کی کوشش کرے تاکہ جلد پہنچنے کی فضلیت حاصل ہو، اور صبح جلدی بیدار ہوجائے۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی)
قربانی سے کچھ نہ کھانا:
٭قربانی کرنے والے کو چاہیے کہ عید کے دن نماز سے قبل کچھ نہ کھائے، عید کی نمازکے بعد اپنی قربانی کے جانور کے گوشت سے کھائے۔ (الفتاوی الہندیۃ) اگر کوئی قربانی سے پہلے کھالے تو حرام نہیں ہوگا۔ (رد المحتار) بلکہ یہ حکم استحبابی ہے، واجب نہیں۔
آمد ورفت کا راستہ:
٭ ایک راستے سے عید گاہ جانا اور دوسرے راستے سے واپس آناچاہیے، نبی کریمؐ کا ایسے ہی معمول تھا۔ (اعلاء السنن)
عیدگاہ پیدل جانا:
٭جو پیدل چل کر جانے پر قادر ہوں، ان کے لیے پیدل جانا مستحب ہے۔ (الفتاوی الہندیۃ) اور واپسی میں سوار ہوکر آنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ (رد المحتار)
تکبیر کہتے ہوئے جانا:
٭بلند آواز سے عید گاہ جاتے ہوئے تکبیر کہتے ہوئے جائیں۔ (البحر الرائق) (اور وہ کلمات یہ ہیں: اللہ اکبر، اللہ اکبر، لا الہ الااللہ واللہ اکبر، اللہ اکبر وللہ الحمد۔)
عید سے قبل نفل نہ پڑھنا:
مسئلہ: عید کے دن فجر کی نماز کے بعد عید کی نماز سے پہلے گھر میں یا کسی بھی جگہ کوئی بھی نفل نماز نہ پڑھیں۔ (رد المحتار) بعض لوگ عید گاہ پہنچ کر نمازِ عید سے قبل نمازیں پڑھتے ہیں اور پوچھنے پر کہتے ہیں کہ ہم فجر کی نماز پڑھ رہے ہیں، تو اجتماعی طور پر عید گاہ میں قضا پڑھنا طرح طرح کی چہ می گوئیوں اور انتشار کا سبب بنتا ہے؛ اس لیے اس طریقہ سے احتراز لازم ہے۔ اول تو مسلمان کی یہ شان نہیں ہے کہ کوئی نماز قضا کرے اور اگر بالفرض نماز قضا ہوجائے تو اسے برسر عام پڑھنے کے بجائے گھر میں ادا کرے تاکہ اپنی کوتاہی مخلوق کے سامنے نہ آسکے۔ (کتاب المسائل)
عید کی مبار ک بادی دینا:
عید کے دن مبارک باد دینے میں کوئی حرج نہیں، بلکہ اگر خرابیوں سے بچ کر ہو تو مستحب ہے، کیوں کہ صحابہ وتابعین کے کئی اقوال وافعال سے عید کی مبارک باد ثابت ہے۔ اسی وجہ سے محقق فقہائے کرام نے عید کے دن ’’تقبل اللہ منا ومنکم‘‘ کے ذریعہ مبارک باددینے کو جائز ومستحب ہونے کا حکم بیان کیا ہے۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ، البحرا لرائق) حضرت واثلہ ؓ سے مروی ہے کہ: انہوں نے عید کے دن نبی کریمؐ سے ملاقات کی اور ’’تقبل اللہ مناومنکم‘‘ کہا تو آپؐ نے بھی ’’تقبل اللہ منا ومنکم‘‘ فرمایا۔ (السنن الکبری للبیہقی)
عید کی نماز کے بعد معانقہ کرنا:
عید کی نماز کے بعد ملنا اور معانقہ یا مصافحہ کرنا امر مسنون نہیں ہے، ہاں اگر کسی سے اسی وقت ملاقات ہو یا نماز کے کچھ فصل کے بعد محض ملاقات کی نیت سے مصافحہ یا معانقہ کیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ (کتاب المسائل)اس لیے کہ شریعت میں مصافحہ کسی مسلمان سے ملاقات کے بعد ہے نہ کے نماز کے بعد۔ (رد المحتار) الغرض ضروری سمجھے بغیر اور عید کی سنت نہ قرار دیتے ہوئے اگر عید کی نماز کے سوا وقت میں معانقہ کرے تو کرسکتے ہیں۔ چناں چہ مفتی رشید احمد لدھیانوی ؒ لکھتے ہیں: معانقہ بھی اس میں شامل ہے یعنی نماز کے فورا بعد معانقہ بھی جائز نہیں ہے، ویسے عید کے دن بوقت ملاقات مصافحہ ومعانقہ درست ہے۔ (احسن الفتاوی)
نماز ِ عید کا طریقہ:
عید کی نماز واجب ہے۔ (البدائع الصنائع) اوریہ دورکعت چھ زائد تکبیرات کے ساتھ پڑھی جاتی ہے۔ چناں چہ دل ہی دل میں نیت کریں کہ دو رکعت نماز عید چھ زائد تکبیرات کے ساتھ پڑھ رہا ہوں۔ پہلی رکعت میں ثنا پڑھ ’’سبحانک اللہ‘‘ پڑھ کر تین بار ’’اللہ اکبر‘‘ کہے اور ہر بار کانوں تک ہاتھ اٹھا کر ’’اللہ اکبر‘‘ کہتا ہوا چھوڑدے، البتہ تیسری بار نہ چھوڑے بلکہ باندھ لے اور امام کو چاہیے کہ ہر دفعہ ’’اللہ اکبر‘‘ کہنے کے بعد کم ازکم اتنی دیر ٹھہرے جتنی دیر تین بار ’’سبحان اللہ‘‘ کہنے میں لگتی ہے۔ پہلی رکعت میں تین بار ’’اللہ اکبر‘‘ کہنے کے بعد امام تعوذ اور تسمیہ پڑھ کر حسب قاعدہ قرات کرے، اس کے بعد رکوع اور دوسجدوں کے ذریعے پہلی رکعت مکمل ہوگی۔ دوسری رکعت میں پہلے قرأت ہوگی، قرأ ت کے بعد رکوع سے پہلے اسی طرح تین بار ’’اللہ اکبر‘‘ کہے جیسے پہلی رکعت میں کہا تھا، تین دفعہ ہاتھ اٹھائے اور چھوڑدے اور چوتھی تکبیر کہتا ہوا ہاتھ اٹھا بغیر رکوع میں چلاجائے اور حسب قاعدہ نماز مکمل کرلے۔ (الفتاوی الہندیۃ) مسئلہ:عید کی نماز کے بعد بھی تکبیراتِ تشریق پڑھیں۔ (حاشیۃ الطحطاوی)