بلوچستان اور احساس ِ محرومی کا ’’احساس‘‘؟

389

 وزیر اعظم عمران خان نے قومی ترقیاتی کونسل کے دوسرے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچستان کے عوام کی احساس محرومی کا اندازہ ہے۔ بلوچستان میں امن اور سماجی اور اقتصادی ترقی کو یقینی بنانا حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں بلوچستان کو مالی امداد اور وسائل مہیا کیے مگر عوام کی فلاح وبہبود کے لیے ان وسائل کے استعمال کو یقینی نہ بنایا جا سکا۔ اجلاس میں بلوچستان کی ترقی کی رفتار تیز کرنے کے لیے کئی فیصلے بھی کیے گئے۔ بلوچستان اس وقت پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بن کر رہ گیا۔ اس کی وجہ تو بلوچستان کی جیو اسٹرٹیجک اہمیت رہی ہے مگر گوادر پورٹ کے قیام کے بعد تو اس کی اہمیت دوچند ہو گئی ہے۔ کچھ لوگ اسے مثبت اور بہت سے منفی اور حاسدانہ نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں۔ یہ دونوں قسم کے لوگ واضح طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ امریکا اور بھارت جیسے ممالک اعلانیہ طور پر گوادر پورٹ اور سی پیک کے مخالف ہیں۔ ان کے ہاں اس منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے باقاعدہ فنڈز مختص کیے جاتے ہیں۔ بلوچستان میں اس وقت جو دہشت گردی ہے اس کی ایک اہم پرت کا تعلق بیرونی قوتوں کی حاسدانہ روش اور جلن سے ہے۔ ان کو یہ اندازہ ہے کہ گوادر پورٹ اور سی پیک کی مستقبل کے عالمی نقشے میں کیا اہمیت ہے۔ وہ اس بات کو سمجھ چکے ہیں کہ یہ منصوبہ گیم چینجر ہے۔ اسی لیے ان قوتوں نے بلوچستان میں بدترین شورش برپا کرنے کے لیے کھلے بندوں اپنا کردار ادا کیا۔ کئی مسلح تنظیمیں کھڑی کی گئیں اور افغانستان کو ان کے بیس کیمپ کے طور پر استعمال کیا گیا۔ پاکستان سے فرار ہونے والے شدت پسندوں کی امریکا بھارت اور ناٹو کے زیر سایہ ہر قسم کی مہمان نوازی کی گئی۔ مقصد بلوچستان کو پاکستان کا ’’مشرقی پاکستان‘‘ بنانا تھا۔ بدقسمتی سے اس آگ کے لیے ایندھن بھی انہیں بلوچستان کی سرزمین سے مقامی افراد کی صورت میں دستیاب ہوا۔ مختلف قبائلی سرداروں کے زیر اثر بلوچ نوجوانوں کو ہتھیار اور تربیت فراہم کرکے افغانستان سے پاکستان میں داخل کیا جاتا رہا اور یہ لوگ فوجی تنصیبات اور قافلوں ہی پر حملے نہیں کرتے رہے بلکہ ان کا نشانہ بیرونی آبادکار اور روزگار کی غرض سے جانے والے مزدور اور محنت کش بھی رہے۔
بلوچستان کی مسلح شورش نے برین ڈرین کیا اور لاکھوں افراد جو اپنی قسمت اور مستقبل اسی سرزمین سے وابستہ کر بیٹھے تھے اور اپنی صلاحیتیں اس معاشرے کی بہتری کے لیے وقف کیے ہوئے تھے واپس اپنے آبائی علاقوں کو منتقل ہوئے۔ ہمارے کئی صحافی دوست جو بلوچستان کے ہو کر رہ گئے تھے ان ماہ وسال میں حالات سے مجبور ہوکر واپس لوٹ آئے۔ کئی ایک اپنے جسموں میں گولیاں لیے لوٹے تو کئی گولیاں کھا کر اسی زمین کا رزق ہوئے کچھ خوش قسمت تھے جو صحیح سلامت جان بچا کر نکلنے میں کامیاب ہوئے وہ بلوچستان کے اچھے دنوں کو یاد کر رہے ہیں۔ یہ شورش اور شدت پسندی ایک منظم منصوبے کے تحت جاری رہی۔ ریاست کے لیے یہ لمحہ فکر رہا کہ بلوچ نوجوان اس کھیل کا ایندھن بننے پر کیوں آمادہ ہوتے رہے؟۔ اس کی بہت سی وجوہات میں ایک عوام کا احساس محرومی اور پسماندگی بھی ہے۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے وسائل کو منصوبہ سازی کرنے والے شہری بابووں نے بلوچستان تک پہنچنے ہی نہیں دیا اگر کچھ حصہ پہنچا بھی تو ریاست اور عوام کے درمیان اس حقوق وفرائض کے عمل میں بلوچ سردار حائل ہوگئے۔ انہوں نے کبھی حکومتوں کی شکل میں تو کبھی ذاتی سرداری کے زعم میں ریاست کی طرف سے ملنے والے وسائل اور بلوچ عوام کے حصے پر ہاتھ صاف کر دیے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلاکہ رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ اور بالخصوص اس کے بلوچ آبادی کے علاقے بدترین پسماندگی کا شکار ہوگئے۔ خواندگی کی رفتار نہ ہونے کے مترادف تھی۔ ظاہر ہے جب ایک طبقے کے پاس ڈگری ہی نہیں ہوگی تو وہ روزگار کیسے حاصل کرپائے گا اور فیصلہ سازی کے فورمز تک کیونکر پہنچے گا؟ بلوچ آبادی اسی المیے کا شکار ہو ئی اور بلوچ سرداروں نے بھی اپنی چودھراہٹ اور سرداری کی بقا کے لیے شعور اور ترقی کی خاموشی سے حوصلہ شکنی کی۔ ان کے اپنے بچے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرتے رہے مگر عام آدمی کا مقدر ناخواندگی اور پسماندگی ہی رہا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بلوچستان کے وسائل پر باہر والوں کا کنٹرول ہوگیا۔ یہ بلوچ عوام کی احساس محرومی کو بڑھاوا دینے والا ایک اہم عنصر رہا۔
اب جبکہ بلوچستان میں ماضی کی نسبت اچھا خاصا امن قائم ہو چکا ہے اور گوادر پورٹ نے بھی اپنا کام شروع کر لیا ہے تو بلوچ آبادی کا احساس محرومی دور کرنے کے لیے عملی اور ٹھوس اقدامات اُٹھائے جانے چاہییں۔ احساس محرومی کا اندازہ اور احساس کرنا ہی کافی نہیں اس احساس کو عملی کوشش ہی سے دور کیا جا سکتا ہے۔ جب ایک ناراض اور دیوار سے لگے ہوئے شخص کو سامنے امید نظر آئے گی تو وہ بے ساختہ اس جانب مائل ہوگا۔ بلوچستان نے گزشتہ دوعشروں میں بہت زخم کھائے ہیں اب ان زخموں پر مرہم رکھنے کا لمحہ آچکا ہے۔