قرض کا منصوبہ اور برسات کے بعد کراچی کا حال

483

 برسات برس چکی، گرمی کی شدت کم ہوئی، عیدالاضحیٰ کی آمد آمد ہے مگر ہر طرف گندگی غلاظت ہے، بعض مقامات پر بارش کا پانی جمع ہے جہاں مچھروں کی افزائش ہورہی ہے متعدد کھلے میدانوں اور گڑھوں میں کھڑے پانی سے تعفن اٹھنے کا خدشہ ہے۔ بعض علاقوں کے گڑھے سوئمنگ پول بن چکے ہیں۔ یہ منظر ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کا جو روشنیوں اور عروس البلاد کہلاتا تھا۔ اب اجڑ کر شہر یتیماں کی عکاسی کررہا ہے۔ کراچی کے لوگ ہی نہیں ملک کے بڑے بڑے دانشور، لائرز اور سابق بیورو کریٹ بھی اس کی جاری تباہی کا اعتراف کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور اس کی تمام ذمے داری 2008 سے صوبے پر برسراقتدار پاکستان پیپلز پارٹی پر ڈالتے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے ’’زندہ ہے بھٹو زندہ ہے‘‘ کے نعرے کی بازگشت میں کراچی ہی کو نہیں پورے صوبے کو نقصان سے دوچار کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کو سیاسی میدان میں بھی برہنہ کردیا۔
موجودہ صوبائی حکومت کراچی سے سب کچھ لیتے ہوئے اب اسے عالمی مالیاتی اداروں سے اربوں ڈالر کے قرضے لیکر ملک کے اس سب سے بڑے شہر کو گروی رکھنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ نالوں کی صفائی تک کے لیے ورلڈ بینک سے قرض لیے جاچکے ہیں۔ اگرچہ نالوں کی صفائی، برساتی پانی کی نکاسی اور صفائی ستھرائی کی بنیادی ذمے داری بلدیہ عظمیٰ اور شہر کے دیگر ضلعی بلدیاتی اداروں کی ہے لیکن موجودہ منتخب بلدیاتی کونسلز کی کرپشن کو چھپاتے ہوئے ان کی ذمے داری کے اس کام کو پہلے سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ نامی ادارہ بناکر صوبائی حکومت کے کنٹرول میں دے دیا گیا بعدازاں ایک مبینہ سازش کے تحت مالی بحران پیدا کرکے ان سے منسلک امور کے لیے ورلڈ بینک کے قرضوں کی بھینٹ چڑھا دیے گئے۔ اس مقصد کے لیے ان دنوں عالمی بینک کے منصوبے ’’کمپیٹیٹیو اینڈ لائیوایبل سٹی آف کراچی‘‘ (کلک) کے تحت 240 ملین ڈالر کے قرضے سے اس پروجیکٹ پر کام شروع کیا جاچکا ہے۔ کلک پروجیکٹ کا ایک سب پروجیکٹ سولڈ ویسٹ ایمرجنسی اینڈ ایفیشنسی امپرومنٹ پروگرام (سوئیپ) ہے۔ جس کے تحت 74 کروڑ روپے صرف کراچی کے 30 بڑے برساتی نالوں اور 8 ڈرینج لائنوں کی صفائی بلکہ وہاں کچرا نکالنے پر خرچ کیے جارہے ہیں جبکہ اس پروگرام کے تحت 12 کروڑ روپے 6 ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن کی حدود میں موجود ساڑے پانچ سو نالوں کی صفائی کی مد میں رواں پروجیکٹ کے لیے رکھے گئے ہیں۔ حکومت کے افسران کا مؤقف ہے کہ سوئیپ پروگرام کے پہلے مرحلے کے تحت کام جاری ہے متعدد ندی اور نالے کلیئر بھی کیے گئے لیکن دو روزہ بارش نے جو صورتحال آشکار کی وہ سب کے سامنے ہے۔ نالوں کی صفائی کے لیے اس سے قبل بلدیہ عظمیٰ اور ڈی ایم سیز کم و بیش سالانہ دو ارب روپے خرچ کرتی رہی مگر کبھی بھی یہ صاف نہیں ہوسکے اس کا فنڈز کے ایم سی اور ڈی ایم سیز کے افسران منتخب نمائندوں کے تعاون سے دونوں ہاتھوں سے لوٹتے رہے۔ دلچسپ امر یہ کہ بلدیہ عظمیٰ کراچی خود میونسپل ادارہ ہونے کے باوجود ایک میونسپل سروسز ڈپارٹمنٹ بھی رکھتی ہے مگر اس ڈپارٹمنٹ نے اپنے قیام سے لے کر آج تک اپنے امور درست طریقے سے انجام نہیں دیے جس کی وجہ اس محکمہ کا بانی اور اس میں کم و بیش 12 سال تک سینئر ڈائریکٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والا کے ایم سی کا کرپٹ ترین افسر ہے جو آج بھی میئر وسیم اختر کا سینئر ڈائریکٹر کوآرڈی نیشن کی خلاف قانون اسامی کے مزے لیتے ہوئے کے ایم سی کے پورے نظام کا ’’مہا راجا‘‘ بنا ہوا ہے۔ یہ افسر آج سوئیپ پروجیکٹ کا کے ایم سی کی طرف سے فوکل پرسن بھی ہے۔ اسے فوکل پرسن بنانے اور فوکل پرسن کے لیے اس کا نام تجویز کرنے والے یقینا اس کرپٹ افسر کے پشت پناہ ہیں اگرچہ نیب مذکورہ افسر کے خلاف انکوائریز کررہی ہے مگر ایسا لگتا ہے کہ نیب اب تک اس افسر کو گرفتار کرنے کے مرحلے تک نہیں پہنچ سکی۔
کراچی کو سینئر ڈائریکٹر کوآرڈی نیشن کی غیر قانونی ذمے داریاں ادا کرنے والے افسران ہی نے نقصان پہنچایا اور پہنچا رہے ہیں۔ مگر کسی کو ایسے افسران کے چہرے نظر نہیں آتے۔ اب عالمی بینک کے قرضوں کے پروجیکٹ میں بھی ایسے ہی افسران فوکل پرسن ہوں گے تو ان منصوبوں کا حال بھی کے ایم سی کے میونسپل سروسز محکمے سے مختلف نہیں ہوسکتا۔ عالمی مالیاتی ادارے تو شاید یہی چاہتے ہیں کہ پاکستان اور اس کے شہر اس کے اربوں نہیں کھربوں ڈالر کے مقروض ہوجائیں مگر ان قرضوں کا کوئی فائدہ شہریوں کو نہ پہنچ سکے۔