عنایت علی خان …بڑا نقصان

443

دنیائے ادب کے نامور شاعر ، ادیب، نقاد، مزاح گو دور جدید کے اکبر الہٰ آبادی پروفیسر عنایت علی خان کی رحلت یقیناً اہل علم اور طالبان علم کے لیے بہت بڑا نقصان ہے۔ حکمراں اور روایتی تعزیتیں کرنے والے انتقال کے فوراً بعدہی تعزیت کرکے خاموش ہو گئے لیکن اس بات کا اندازہ سید مودودی کی تحریک کو ہے ،اس کے قافلے کے راہیوں کو ہے کہ اس قافلے نے کیسا ہیرا کھویا ہے ۔ ایک بہت معروف شعر عنایت علی خاں کہہ گئے تھے کہ
حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹھیرے نہیں حادثہ دیکھ کر
خان صاحب کو اچھی طرح علم تھا کہ جب ان کا سانحۂ ارتحال ہوگا تو لوگ یہ حادثہ دیکھ کرٹھیریں گے نہیں ۔ اور ٹھیر بھی کیسے سکتے ہیں ۔ عنایت علی خان راجپوتانے میں ریاست ٹونک سے تعلق رکھتے تھے۔1948ء میں وہیں سے ہجرت کر کے پاکستان آئے ۔ سید منور حسن کی طرح انہوں نے بھی اپنا سفر ترقی پسندوں کے ساتھ شروع کیا لیکن جلد ہی اسلامی جمعیت طلبہ کے راستے جماعت اسلامی میں پہنچ گئے اور پھر اسی کے ہو لیے ۔ عنایت علی خاں محض شاعر یا مزاح گو نہیں تھے بلکہ معاشرے کے سنگین مسائل کی نشاندہی نہایت لطیف پیرایہ میں کرتے تھے ۔ اس لطافت کے سبب کیڈٹ کالج پٹارواور جرنیلوں کے بڑے بڑے اجتماعات میں ان ہی پر تنقید کرتے اور خوب داد بھی وصول کرتے ۔ انہوں نے سخت زندگی گزاری اپنے لیے کچھ نہیں بنایا بلکہ اگر کہا جائے کہ وہ نسلیں بچا گئے ، نسلیں بنا گئے تو بے جا نہ ہو گا ۔ انہوں نے کردار سازی کی ، انہوں نے اردو کی بے انتہا خدمت کی ۔ خود اُردو کی نصابی کتب لکھیں اور سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی کتابوں پر نظر ثانی کا کام انہوں نے برسوں کیا ۔ عنایت علی خاں کے شاگردوں کی تعدادبلا شبہ لاکھوں( تعلیمی اداروں اور شاعری)میں ہو گی ۔ اور اس سے کہیں زیادہ ان کی شاعری کے مداح اور اسے پسند کرنے والے تھے ۔ وہ ایک فقیر منش انسان تھے ۔ اتفاق ہے کہ وہ سید منور حسن کے انتقال کے ایک ماہ بعد ہی ان کے پیچھے چل دیے ۔ خاں صاحب پاکستانی معاشرے کو اسلامی معاشرے میں ڈھالنے کی جدو جہد کرنے والوںمیں سے تھے۔ اس کے لیے تڑپتے بھی تھے ،کوششیں بھی کرتے تھے اور کبھی اپنی شناخت یا جماعت اسلامی سے تعلق کو نہیں چھپایا ۔ وہ دنیا کا ہر طرح کا مال کما سکتے تھے لیکن وہ آخرت ہی سمیٹنے آئے تھے وہی لے کر چلے گئے ۔ خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را۔