آئوٹ آف دی باکس حل

587

ایک مرتبہ جنرل ضیاء الحق نے سیاست دانوں کے بارے میں کہا تھا ’’سیاست دانوں کو سیاست کی ABCنہیں آتی‘‘۔ اس پر خان عبدالولی خان نے کہا تھا ’’جنرل صاحب زیادتی نہ کریں۔ جب سیاست دان ABCDEF تک پہنچتے ہیں تو آگے GHQ آجاتا ہے‘‘۔ اچھے وقت تھے کھل کر فوج یا جی ایچ کیو کا نام لیا جاسکتا تھا۔ وقت گزرا، اس براہ راست نشاندہی کو غیر مناسب باور کیا جانے لگا تو ’’اسٹیبلشمنٹ‘‘ کہا جانے لگا۔ یہ بھی مزاج شاہاں پر گراں گزرنے لگا تو سلیکٹرز اور حکمران اشرافیہ کہہ کر رسم پردہ داری ادا کی جانے لگی۔ الفاظ کچھ بھی بولے اور لکھے گئے حکومتیں فوجی ہوں یا سول ریاست اور معاشرے پر ان نا خدائوںکی گرفت ڈھیلی نہ پڑی۔ آج صورتحال یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی حکومت نالائق، نااہل، منافق اور بے مغز ہے لیکن چونکہ اسے ریاست کے جاہ طلب اداروں کی پشت پناہی حاصل ہے تو ان کے اقتدار کو کوئی خطرہ نہیں۔ پاکستان کو جن گمبھیر اور بڑے مسائل کا سامنا ہے موجودہ حکومت کی دوسالہ کارکردگی نے ثابت کردیاکہ وہ ان کے حل کی اہلیت نہیں رکھتی اس پر قہر یہ کہ حکومت کی ناقص کارکردگی نے اشیا کی قیمتوں کو کہیں سے کہیں پہنچا دیا ہے لیکن پھر بھی آشیرباد کی کرشمہ سازی ہے کہ وہ برسر اقتدار ہیں۔ دو برس پہلے سونا 52ہزار روپے تولہ تھا آج 1لاکھ 22ہزار روپے تولہ ہے۔ چینی 50روپے کلو تھی آج 90روپے کلو ہے۔ 10کلو آٹا 350 روپے کا تھا آج 600 روپے کا ہے۔ گھی 120 روپے کلو تھا آج 190 روپے کلو ہے۔ مونگ کی دال 160روپے کلو تھی آج 300روپے کلو ہے۔ جہاں تک ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کا تعلق ہے تو ہمیں نہیں معلوم۔ اس کا حال انہیں پتا ہوگا جو روپے والے ہیں یا پھر جنہیں بروقت تنخواہ ملتی ہے۔ سونے کی قیمت بھی کسی سے پوچھ کر لکھی ہے۔
آج عوام ناخواندہ، بے روزگار، پریشان اور احساس محرومی کا شکار ہیں تو اس کی وجہ فوجی اور سول حکومتوں کی ان کے باب میں مجرمانہ سرگر میاں ہیں۔ اسے مجرمانہ سرگرمی نہیں تو اور کیا کہا جائے کہ ملک میں آٹا، چینی اور پٹرول وافر مقدار میں موجود تھا لیکن ان اشیاء کا بحران پیدا کرکے قیمتوں میں اضافہ کردیا گیا۔ ان بحرانوں سے نمٹا جاسکتا تھا اگر حکومتی ایوانوں میں کہیں اس کی خواہش موجود ہوتی۔ حکومت کی اس تباہ کن کارگردگی پر مقتدر قوتیں حکومت سے دور ہوتی محسوس ہورہی تھیں۔ سب ٹھیک ہے اور ایک صفحہ پر ہونے کا تاثر بھی موڑ مڑتا نظر آرہا تھا۔ لگتا تھا لاپروا، لاعلم اور سنگدل حکومت کی کارکردگی کی بھاری قیمت چکانے کے بجائے واپسی کا کوئی باعزت راستہ تلاش کیا جارہا ہے۔ موجودہ تباہ کن صورتحال پر لوگ اسٹیبلشمنٹ کو بھی یکساں طور ذمے دار قرار دے رہے ہیں، معلوم ہورہا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کو یہ نظر آنے لگا ہے۔ ان پر ظاہر ہوگیا ہے کہ ان کا ایک اور تجربہ نا کام ہو گیا ہے۔ پھر نجانے کس جرنیلی ضرورت نے جنم لیا، بند گلی کے کس احساس کی ولادت ہوئی کہ مقتدر قوتوں نے پینترا بدل کر تباہی کے وائرس کو ایک مرتبہ پھر بلا روک ٹوک پھیلنے کی اجازت دے دی۔ لوگوںکو سمجھ میں نہیں آرہا کہ اس نرغے سے کیسے نکلا جائے؟
11جولائی 2020 کو وزیراعظم عمران خان نے مالیات اور معیشت کے حوالے سے بنائے گئے اپنے تھنک ٹینک کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے معاشی ترقی بڑھانے کے لیے آئوٹ آف دی بکس حل کی ضرورت پر زور دیا۔ وزیراعظم کی یہ کوشش دنیا بھر کے ان سنجیدہ حلقوں کی ایک بھونڈی نقل ہے جو سرمایہ دارانہ نظام کی نا اہلی اور زوال پزیری سے بوکھلاہٹ کا شکار ہیں، جس کی وجہ سے دنیا بھر میں سرمایہ دارانہ حکومتوں کی اپنے اپنے سماج پر گرفت کمزور پڑتی جا رہی ہے۔ یہ ظلم پر مبنی ایسا نظام ہے جو گندم پیدا کرنے والے ان کروڑوں کسانوں کو تو کوئی سبسڈی نہیں دیتا جو غربت کی دلدل میں اترتے جارہے ہیں لیکن غریب عوام کا خون چوسنے والے سرمایہ داروں کو سبسڈی فراہم کرتا ہے جو پہلے گندم کو برآمد کرکے اپنی تجوریاں بھرتے ہیں۔ برآمد کے نتیجے میں ملک میں قلت پیدا ہوتی ہے تو پھر مہنگائی کرکے اس قلت کا بھی فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اس نظام کے آئوٹ آف دی باکس حل بھی سرمایہ دار طبقے کے مفاد کا تحفظ اور غریبوں کا بدترین استیصال کرتے ہیں۔ عمران خان کا بنایا ہوا یہ تھنک ٹینک اور اس میں ان کا خطاب موبائل فون پر آنے والے ان چاہے اشتہارات کی طرح ہے۔ جس نظام کو وقت ڈیلیٹ کررہا ہے وہ اسی نظام کے اندر رہتے ہوئے آئوٹ آف دی باکس حل تلاش کرنا چاہتے ہیں۔
اس نظام میں عوام کو باعزت روزگار دینے اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے بجائے امدادی اسکیمیں متعارف کرائی جاتی ہیں۔ ہر اسکیم بھکاریوں کی ایک نئی کھیپ پیدا کرتی ہے خواہ وہ بے نظیر انکم سپورٹ ہو یا احساس پروگرام۔ لنگر خانوں اور بھوکوں کو کھانا کھلانے کے مراکز کی بڑھتی ہوئی تعداد، یہ اس نظام کی کامیابیاں ہیں جن کا حکمران بڑے فخر کے ساتھ افتتاح کرتے ہیں۔ اس نظام میں ایک طرف صحت کارڈ ہیں تو دوسری طرف بجٹ میں صحت کی مد میں کٹوتیاں ہیں جن کے بعد سرکاری اسپتالوں میں دوائیں ہیں اور نہ ضروری سہولتیں۔ عوام کو سرکاری اسپتالوں سے متنفر کرکے حکومت نج کاری کے نام پر ان اسپتالوںکو سرمایہ داروں کو بیچنے کا بندوبست کرتی ہے۔ یہی حال تعلیم کے شعبے کا ہے۔ سرکاری اسکولوں کو پہلے نہ چلنے کا انتظام کیا جاتا ہے اور پھر انہیں بیچنے کا۔ صحت ہو یا تعلیم یا پھر کوئی اور شعبہ عوام کو پرائیوٹ سیکٹر کی طرف جانے اور اپنی جیبیں کٹوانے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اس نظام میں حکومتیں عوام کی دوست اور ان کی فلاح کی متمنی نہیں بلکہ ایسی دشمن ہیں جو ہر ماہ پٹرول، بجلی اور گیس مہنگی کرکے اور مختلف ٹیکس لگا کر اشیاء صرف کو عوام کی دسترس سے باہر کررہی ہیں۔ جب کہ دوسری طرف یہی حکومتیں بیوروکریٹس اور اراکین اسمبلی کی تنخواہوں میں تین تین سو فی صد اضافہ کررہی ہیں جو پہلے ہی بھاری تنخواہوں اور مراعات کی گنگا میں پورے جسم وجاں سے ڈوبے ہوئے ہیں۔
پرویز مشرف کے دور میں وزیراعظم شوکت عزیز نے جنہیں ملک چلانے کے لیے ایک استعماری ادارے سے درآمد کیا گیا تھا ٹریکل ڈائون پالیسی متعارف کرائی تھی۔ مطلب اس آئوٹ آف دی بکس پالیسی کا یہ تھا کہ پہلے سرمایہ دار پیٹ بھر کر کھائیں، ان سے جو بچ جائے وہ جھوٹن مانگتے ہوئے عوام کے آگے ڈال دی جائے۔ اس نظام میں عوام کو چور اور منگتے بنایا جاتا ہے۔ جو چالاک ہیں انہیں چوری اور کرپشن کے راستے دکھائے جاتے ہیں جو سادہ لوح ہیں انہیں بھیک مانگنے کا عادی بنایا جاتا ہے۔ امریکا میں نیویارک کی گلیاں ہوں یا بھارت کی جھونپڑ پٹیاں وہاں آپ کو غربت اور بھیک مانگتے عوام نظر آئیں گے اور ان کے اردگرد ان ہی میں سے چور، بدمعاش اور بھائی لوگ۔ ان تمام مظالم اور زیادتیوں کے باوجود عوام سے مکمل طور بے گانہ حکمران طبقہ انتہائی بے شرمانہ ہٹ دھرمی سے خود کو عوام کے غم میں گھلتا پوز کرنے میں مصروف نظر آتا ہے۔ جمہوریت اور سرمایہ دارانہ نظام میں حکمران مسخروں کے علاوہ کچھ نہیں۔ گزشتہ برس جب ٹماٹر کی قیمتیں تین سو روپے سے تجاوز کر گئی تھیں حفیظ شیخ مسخروں کی طرح 17روپے کلو فروخت کے دعوے کررہے تھے۔ شیخ رشید آئے دن ہونے والے ریلوے حادثات میں جانی نقصانات کے باوجود غریبوں کے حقوق کے چمپئن دکھائی دیتے ہیں اور پنجاب کو برباد کرنے والا بزدار وزیراعظم کو ڈائنامک نظر آتا ہے۔
سرمایہ داریت کو بچانے کے لیے آئوٹ آف دی بکس جانے کے بجائے اس نظام کو تدفین کی ضرورت ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے حمام میں ننگے نہانے والے حکمرانوں کے لیے ایسا کرنا ممکن نہیں۔ یہ حکمران غریب عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے سرکاری محلات اور پرتعیش نجی رہائش گاہوں میں رہنے، وسیع وعریض گالف کے میدانوں میں کھیلنے، پرتعیش گاڑیوں، جہازوں اور ہیلی کاپٹروں میں سفر کرنے کے عادی ہوگئے ہیں۔ آئوٹ آف دی باکس حل صرف ایک ہی ہے اس نظام کا خاتمہ اور اسلام کا نفاذ۔ جو ہماری معاشی مشکلات ہی نہیں ہر طرح کی مشکلات کا واحد حل اور حتمی منزل ہے۔