رام مندر کا سنگ بنیاد اور پاکستانی حکمران

543

کشمیر کے سودے کا ایک سال مکمل ہونے پر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے بابری مسجد کی جگہ مندر کا سنگ بنیاد رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ وہی دن ہے جب مودی حکومت نے پہلے سے اعلان شدہ منصوبے کے مطابق کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس کے بعد 9 نومبر کا دن چنا گیا بابری مسجد کا فیصلہ دینے کے لیے اب ایک بار پھر مودی نے 5 اگست کو بابری مسجد کی جگہ پر مندر کا سنگ بنیاد رکھنے کافیصلہ کیا ہے۔ تمام تر قوت رکھنے کے باوجود سخت سیکورٹی ہوگی اور تقریب میں شرکا محدود ہوں گے۔ لیکن پاکستان کی حکومت نے ایک سال میں ایک قدم بھی نہیں بڑھایا۔ اس سال بھی 5 اگست کو یوم سیاہ اور احتجاج امیر جماعت اسلامی سراج الحق کے بار بار مطالبے اور دبائو پر کیا جا رہا ہے ورنہ عمرانی سرکار تو یہ کرنے کو بھی تیار نہیں تھی۔ احتجاج اور یوم سیاہ تو عوامی سطح کا کام ہے۔ سرکار کا کام بین الاقوامی برادری کو اس معاملے سے صحیح طور پر آگاہ کرنا اور اگر ہمت اور دم ہے تو کوئی جوابی کارروائی کرنا ہوتا ہے لیکن ہمارے حکمرانوں نے پاکستان کی پوزیشن تو عالمی برادری میں خود خراب کی ہے۔ اپنے ہاتھوں کشمیریوں کی پشتبان قوتوں کو محدود کیا گیا۔ ملک بھر میں یہ تاثر دیا گیا کہ کشمیر کی آزادی کی بات کرنا دہشت گردوں کی پشت پناہی ہے اور جب بھارت نے کشمیر پر قبضہ مستحکم کرنے کے لیے 5 اگست 2019ء کا اقدام کر لیا تو تالیاں پیٹتے اور ترانے بجاتے ہوئے نکل پڑے… آدھا گھنٹہ کھڑے ہو کر احتجاج کروایا، دو ہفتے بعد وہ بھی ختم۔ ہماری حکومت مسلسل سیاسی مخالفوں کو جیل بھیجنے اور ان کی سیاست ختم کرنے میں مصروف ہے۔ اس کی ساری سعی کا مقصد و محور بھی یہی ہے۔ ملک میں مہنگائی کا کیا حال ہے۔ عوام پر کیا بیت رہی ہے۔ لاک ڈائون کے حوالے سے حکومت سندھ اور مرکز کی لڑائی میں پاکستانی تجارت و صنعت کا بیڑہ غرق کر دیا گیا ہے۔ پاکستانی حکومت کشمیر کے حوالے سے اپنی ذمے داری سے بالکل بے پروا ہو گئی ہے اور اس کی ساری توجہ اندرونی سیاست اور اپنے کرپٹ عناصر کو تحفظ دینے پر ہے۔ بھارتی حکمرانوں نے کشمیر کی آئینی حیثیت میں تبدیلی کے بعد اپنے قدم نہیں روکے۔ کشمیر کی آبادی کے تناسب میں تبدیلی کی کوشش بھی کی جارہی ہے اور وہاں قبضے کی بھی۔ ملازمتوں کے لیے بھی ہندوئوں کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ اب بھارتی فورسز کے اہلکاروں کو کشمیر میں این او سی کے بغیر جائداد خریدنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ ویسے اگر این او سی کی پابندی ہوتی تو بھی کون سا اسے انصاف کے پیمانوں پر پرکھا جاتا… جو بھی مودی سرکار کا آدمی آتا اسے این او سی جاری کر دیا جاتا۔ پاکستان کی جانب سے تو بس مسلسل کمنٹری جاری ہے۔ وہ کشمیر میں داخل ہو گئے ہیں۔ انہوں نے لاک ڈائون کر دیا ہے وہ قتل عام کرنے والے ہیں۔ وہ جغرافیائی حیثیت بدل رہے ہیں۔ وہ انسانی المیہ پیدا کر رہے ہیں۔ اب بوسنیا جیسا قتل عام کرنے والے ہیں لیکن کوئی ہمارے حکمرانوں سے پوچھے کہ مودی حکومت تو یہ سب کر رہی ہے اور کرنے والی ہے آپ سوائے بیان بازی اور کمنٹری کے کیا کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق کشمیر متنازع علاقہ ہے۔ یعنی یہ نہ بھارت کا ہے، نہ پاکستان کا جب تک استصواب رائے نہ ہو جائے۔ اس طرح اگر بھارت نے مقبوضہ علاقے میں فوجیں اتار رکھی ہیں تو پاکستان کو بھی پورا حق ہے کہ مظلوم کشمیری بھائیوں کی مدد کے لیے فوج بھیج دے۔ لیکن اس کے لیے جرأت، ہمت اور ایمانی جذبہ درکار ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ لداخ میں چینی فوج نے وہی کیا جس کے لیے اسے تربیت دی گئی ہے۔ یہ ایک طنز ضرور ہے لیکن حقیقت یہی ہے۔مزید غلطی یہ ہے کہ اب وزیراعظم عمران خان کو بنگلا دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد سے تعلقات بہتر بنانے کا خیال آرہا ہے۔ پہلے اس سے رابطہ کیا اب ڈھاکا میں پاکستانی ہائی کمیشن فعال ہو گیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق سفارتی کشیدگی کم کرانے میں چین نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ اور چین کی یہ ضرورت ہے لیکن پاکستان کی جانب سے بنگلا دیشی وزیراعظم کے ساتھ رابطوں سے قبل پاکستان کے بارے میں حسینہ واجد کے بیانات اور پاکستان سے ہمدردی کے نام پر اپنے شہریوں کے جعلی ٹریبونل کے ذریعے قتل پر اس سے جواب تو طلب کیا جاتا۔ کوئی تشویش تو ظاہر کی جاتی۔ لیکن یہاں تو لگ رہا ہے کہ مودی سے یاری کے بعد حسینہ واجد سے بھی دوستی کی پینگیں بڑھائی جائیں گی۔ مودی نے کشمیر میں اور بھارت میں مسلمانوں کا قتل عام کیا ہے اور حسینہ واجد بنگلا دیش میں پاکستان سے محبت رکھنے والوں کو جعلی مقدمات اور ٹریبونلز کے ذریعے موت کی سزائیں دے رہی ہے۔ اور وزیراعظم عمران خان اب ان سے تعلقات بہتر بنانے کی طرف جا رہے ہیں۔ تعلقات ضرور بہتر بنائے جانے چاہییں لیکن اپنے ملک کے وقار، پاکستانی فوج پر بنگلا دیشی حکومت کے الزامات اور پاکستان توڑنے والوں کی جانب سے پاکستانی حکومتوں کو ملزم قرار دینے کے الزامات کا کوئی تو نوٹس لیا جانا چاہیے۔ کیا سب کچھ ڈالروں کی جھنکار میں دب جائے گا۔ کسی کو 16 دسمبر یاد نہیں آئے گا۔ وزیراعظم عمران خان اتنا کام کر لیں کہ اپنی پانچ دس سال کی تقاریر کو ایک مرتبہ پھر سن لیں اور جو اعلانات اس وقت کیے تھے اور جو کچھ اب کر رہے ہیں ان کا موازنہ کر لیں۔ انہیں خودبخود ایک ہی راستہ سوجھے گا اور وہ اقتدار چھوڑ کر گھر جانے کا ہے لیکن وہ اب خود ایک مصیبت میں پھنس چکے ہیں۔ انہوں نے حزب اختلاف کو اس قدر دبایا ہے کہ حکومت جانے کے بعد گھر نہیں وہ بھی جیل ہی جائیں گے۔جب حکمران قومی مفادات، قومی پالیسیوں اور ملکی وقار کا سودا کر لیں، پاکستان کی شہ رگ کو دشمن کے ہاتھوں فروخت کر دیں تو ان کا یہ انجام بھی ممکن ہے۔ جو کم سے کم ہوگا۔