حج، قربانی اور کورونا

699

لیجیے صاحب عید قربان بھی آن پہنچی۔ اس سے پہلے ہم نے عیدالفطر اس حال میں منائی کہ کورونا سروں پر مسلط تھا، ایک دوسرے سے گلے ملنے کی اجازت نہ تھی، حکومت کا اصرار تھا کہ اگر عوام نے ایس او پیز پر عمل نہ کیا تو کورونا کا پھیلائو شدت اختیار کرسکتا ہے لیکن عوام نے عید کی خوشی میں کوئی پروا نہ کی۔ خواتین نے عید کی شاپنگ کے لیے بازاروں پر یلغار کردی اور خریداری کے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔ عوام نے عید ملنے میں بھی کوئی رعایت نہ کی۔ پارکوں اور تفریح گاہوں میں بھی خاصا رش رہا۔ کورونا عوام کے یہ تیور دیکھ کر سہم گیا اور اس کی شدت میں کمی آتی چلی گئی۔ اگرچہ یہ وبا اب بھی موجود ہے، اموات بھی ہورہی ہیں، نئے کیسز بھی سامنے آرہے ہیں لیکن یہ ساری باتیں اب معمولات زندگی میں شامل ہوگئی ہیں اور کورونا روزمرہ کی بحث سے خارج ہوگیا ہے۔ اب عید قربان آئی ہے تو پھر حکومت نے خبردار کیا ہے کہ اگر عید کے موقع پر ایس او پیز پر عمل نہ کیا گیا تو کورونا پھر پھیل سکتا ہے۔ حکومت کی وارننگ اپنی جگہ، عوام اپنی مرضی پر عمل کررہے ہیں۔ کورونا کے اس ذِکر میں ہم عید کے چاند کو تو بھول ہی گئے۔ فواد چودھری نے ایک ہفتے پہلے ہی اعلان کردیا تھا کہ اب کی دفعہ انتیس کا چاند ہوگا اور عید جمعے کو ہوگی لیکن ہوا یہ کہ انتیس ذی قعد کو پورے ملک میں مطلع ابر آلود رہا اور کہیں سے چاند دیکھنے کی کوئی شہادت موصول نہ ہوئی۔ اس طرح فواد چودھری کا دعویٰ دھرے کا دھرا رہ گیا۔ اگلے دن چاند نکلا تو سب نے دیکھا اور رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مفتی منیب الرحمن نے باضابطہ طور پر اس کا اعلان کیا۔ مفتی پوپلزئی نے بھی بزبانِ خاموشی اسے تسلیم کیا، البتہ مفتی فواد چودھری سر پکڑ کر رہ گئے۔
عید قربان درحقیقت سنت ابراہیمی کی یاد میں منائی جاتی ہے اور سنت ابراہیمی کا تعلق حج سے بھی ہے۔ حج وہ عالمگیر اجتماع ہے جس میں دُنیا کے کونے کونے سے آئے ہوئے فرزندان، اسلام ایک مرکز پر جمع ہوتے، مناسکِ حج ادا کرتے اور اس کے بعد سنت ابراہیمی ؑ کی پیروی میں قربانی کرتے اور سرمنڈواتے ہیں۔ اب کی دفعہ کورونا نے اس سارے عمل کو ملفوف کردیا ہے۔ حج اگرچہ معطل نہیں ہوا لیکن بہت محدود ہوگیا ہے۔ سعودی حکومت نے کورونا کے پھیلائو کے خدشے کے پیش نظر دنیا بھر سے زائرین حج کو آنے کی اجازت نہیں دی، البتہ مختلف مسلمان ملکوں کے جو لوگ سعودی عرب میں مقیم ہیں انہیں اس شرط پر حج ادا کرنے کی اجازت دی گئی ہے کہ ان کی عمر مقررہ حد سے زیادہ نہ ہو، ان کا کورونا ٹیسٹ منفی آیا ہو، نیز انہیں کوئی اور بیماری لاحق نہ ہو۔ ظاہر ہے کہ اس معیار پر غیر سعودی باشندوں کا پورا اُترنا زیادہ آسان نہیں۔ خاص طور پر سعودی حکومت نے عمر کی جو حد مقرر کی ہے غیر سعودی باشندوں کے لیے وہی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اس طرح اب کی دفعہ حج اس حال میں ہورہا ہے کہ اس میں عالمی نمائندگی برائے نام ہے اور صرف سعودی باشندے ہی محدود تعداد میں مقررہ ایس او پیز کے تحت یہ فریضہ ادا کررہے ہیں۔ حج کے موقع پر جس بڑے پیمانے پر قربانی کی جاتی تھی اور قربانی کا یہ گوشت جس طرح پوری دنیا کے ضرورت مند مسلمانوں کو بھیجا جاتا تھا اب کی دفعہ یہ بھی ممکن نہیں رہا۔ جذباتی مسلمان اسے یہود و نصاریٰ کی سازش قرار دے رہے ہیں۔ یہ سازش نہ بھی ہو تو مسلمانوں کی اس بے بسی پر انہیں خوشی ضرور ہوئی ہے۔
البتہ سنت ابراہیمی کی پیروی میں قربانی ایک ایسا عمل ہے جس کے خلاف ہر سال بہت پروپیگنڈا کیا جاتا ہے اور وہ نام نہاد لبرل عناصر جنہیں کوئی بھی اسلامی عمل ایک آنکھ نہیں بھاتا، جانوروں کی قربانی کو وقت اور پیسے کا ضیاع قرار دیتے ہیں لیکن اُمت مسلمہ نے کبھی ان ہفوات پر توجہ نہیں دی۔ پاکستان میں بھی قربانی کے خلاف پروپیگنڈا کبھی مقبول نہیں ہوسکا۔ عید قربان کا چاند نظر آتے ہی پورے ملک میں جانوروں کی منڈیاں لگ جاتی ہیں اور خریدو فروخت کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ دیہی علاقوں کے لوگ زراعت کے علاوہ جانور پالتے اور عید قربان کے موقع پر انہیں لے کر شہروں کا رُخ کرتے ہیں۔ انہیں اپنے جانوروں کی اچھی قیمت مل جائے تو ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں رہتا۔ اب کی دفعہ کورونا نے اگرچہ لوگوں کی قوت خرید کو متاثر کیا ہے اور جو لوگ بکرے کی قربانی کرتے تھے وہ اب بڑے جانور میں حصہ ڈال رہے ہیں لیکن قربانی کا چرچا ہر طرف ہے۔ بہت سے لوگ جنہیں سارا سال گوشت کھانے کا موقع نہیں ملتا عید قربان کے موقع پر اپنی حسرت پوری کرلیتے ہیں۔ یوں دیکھا جائے تو قربانی ملک میں جہاں معاشی سرگرمیوں میں اضافے کا سبب بنتی ہے وہیں اس سے محروم طبقات کو بھی فائدہ پہنچتا ہے۔
پاکستان میں قربانی کی کھالیں مذہبی جماعتوں، دینی مدارس اور فلاحی تنظیموں کی آمدنی کا ایک اہم ذریعہ رہی ہیں، ان کے کارکن گھر گھر جا کر کھالیں جمع کرتے اور آڑھتیوں کے ذریعے ان کی فروخت کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ پاکستان کھالوں کی ایکسپورٹ سے بھاری زرمبادلہ کماتا تھا لیکن اب کی دفعہ سننے میں آرہا ہے کہ ایف اے ٹی ایف کھالیں جمع کرنے اور انہیں ایکسپورٹ کرنے کے حق میں نہیں ہے کیوں کہ اس کے نزدیک اس سے ’’دہشت گردوں‘‘ کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ پاکستان اس وقت ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں ہے اور اس کی کوشش ہے کہ اس کا نام گرے لسٹ سے نکل جائے۔ جب کہ بھارت پاکستان کو بلیک لسٹ میں ڈالنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے تا کہ پاکستان پر مکمل اقتصادی پابندیاں لگوائی جاسکیں، قربانی کی کھالوں کا شوشا بھی اسی کا چھوڑا ہوا ہے۔
قربانی کے جانوروں اور قربانی کی کھالوں کا ذِکر تو بہت ہوگیا لیکن عوام کالانعام کا ذکر تو رہ گیا جو حکومت اور مہنگائی مافیا کے ہاتھوں قربانی کے بکرے بنے ہوئے ہیں۔ حکومت بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں آئے دن اضافہ کرکے ان کا خون نچوڑ رہی ہے تو مہنگائی مافیا آٹا، چینی، سبزی اور پھل مہنگا کرکے عوام کا گلا دبا رہا ہے۔ اندازہ کیجیے جو آٹا آج سے پینتالیس پچاس سال پہلے بیس روپے من تھا وہ اب ستر روپے فی کلو فروخت ہورہا ہے۔ کوئی حد ہے مہنگائی کی! لیکن حکمران خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ اگر وہ مہنگائی کو لگام نہ دے سکے تو ان کی حکمرانی کا آخر کیا جواز باقی رہ جاتا ہے؟ عوام نے بہت قربانی دے لی اب وہ حکمرانوں کی قربانی کے منتظر ہیں۔