سونامی زدہ کراچی

475

کراچی میں ایک مرتبہ پھر دو ڈھائی گھنٹے کی بارش نے شہر کو ڈبو دیا اور شہر کوسہولتیںدینے والے نہیں ڈوبے ۔ سیکرٹری بلدیات روشن شیخ نے گزشتہ دنوں بڑے فخر سے اعلان کیا تھا کہ خدا کا شکر ہے کوئی مرکزی اور بڑا نالہ بند نہیں تھا اس لیے کراچی میں پانی اس طرح نہیں آیا جیسے عام طور پر آتا ہے ۔لیکن روشن شیخ صاحب کے لیے یہ روشن دلیل اتوار اور پیر کوسارا شہر بھی دیکھ رہا تھا کہ چونکہ اندرونی گٹر بند تھے اس لیے گزشتہ ہفتے کی بارش میں بھی پانی مرکزی نالوں تک نہیں پہنچا، شہر ہی میں کھڑا رہا ۔اس کے بعد ہنگامی بنیادوں پر بہت سی گٹر لائنوں کو صاف تو کردیا لیکن آگے تین سو سے زائد نالوں کی صفائی نہ ہونے کے نتیجے میں سڑکیں تالاب بن گئیں، انڈر پاسز سوئمنگ پول بن گئے ۔ گھروں کے اندر اور باہر اس قدرتیز رفتار پانی آیا کہ پارک کی ہوئی گاڑیاںبہہ گئیں ۔ مدرسوں میں بچے بارش کے دوران پھنس گئے جس کی وجہ سے انہیں باہر نکلنا مشکل تھا ۔ اور سیکرٹری بلدیات کا اتوار کے روز بھی یہی دعویٰ رہا کہ تیزبارش کے باوجود ندی نالے اوور فلو نہیں ہوئے ۔ شہر کی سڑکوں سے دو گھنٹے میں پانی کی نکاسی ہو گئی ۔ وہ گھر سے نکلیں تو حقائق جان سکیں ۔ وہ تو بھلا ہوالخدمت والوں کا کہ وہ ربر کی کشتی اور ٹیوب لے کر پہنچے ، بچوں کو ان پر بٹھا کر چار ساڑھے چار فٹ پانی سے نکال کر لے گئے ۔ یہ حیرت انگیز بات ہے کہ پلوں پر دو دو سو گزتک ایک ڈیڑھ فٹ پانی کھڑا ہو جاتا ہے ۔ سیکرٹری بلدیات کو یہ بھی معلوم ہو گا کہ شہر میں پانی کی نکاسی کا نظام کون سا کام کر رہا ہے ۔ کاغذ میں کیا لکھا ہے اور سڑک پر کیا ہو رہا ہے ۔ سڑک پر تو مٹی اٹھانے والی ٹریکٹر ٹرالی کی مدد لی جا رہی ہے جس کے بلیڈ سے پانی کی نکاسی کی جا رہی ہو ۔ جب بارش رُک جاتی ہے تو بلدیہ کا عملہ پتلے پتلے بانس لیے لوہے کی سلاخ ہاتھ میں تھامے بڑے بڑے گٹر کھولتے دکھائی دیتا ہے ۔ یہ اتنا سنگین مذاق ہے کہ اس پر کسی بھی مہذب معاشرے میں میئر ، وزیر بلدیات اور سیکرٹری بلدیات تو جیل چلے جاتے ۔ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے لیکن اس شہر کی حالت ہر آنے والے دن خراب ہوتی جارہی ہے ۔ یہ حال صرف کراچی کا نہیں ہے پورے ملک میں یہی ہو رہا ہے کراچی نے ماضی میںاس کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ بارش دیکھی ہے تاہم ایسی تباہی نہیں گزری ۔ یہاں تو اتوار کی بارش کی تباہی سے نکلے تھے کہ پیر کو بھی بارش ہو گئی جس کی پیشگوئی کر دی گئی تھی۔ بارش تو بہت ضروری ہے شہر کے پانی کے ذخائر کے لیے بھی ضروری ہے اور موسمی تبدیلیوں اور بیماریوں سے بچائو کے لیے بھی ۔ لیکن بلدیہ کراچی ۔ حکومت سندھ کا محکمہ بلدیات ، سالڈ ویسٹ کا محکمہ ، محکمہ صحت ان سب نے مل کر کراچی کو لا وارث بنا دیا ہے ۔حیرت ہے میئر کراچی کے خلاف کوئی مضبوط عوامی تحریک نہیں اٹھ رہی جو گزشتہ پانچ برس سے فنڈز کا رونا روتے ہوئے کوئی کام کرنے پر تیار نہیں اور منصب چھوڑنے پر بھی تیار نہیں ۔ اس پر طرہ کے الیکٹرک کی غنڈہ گردی اور دروغ گوئی ۔ پورے دن بہت سے علاقوں میں بجلی نہیں رہی ۔بعض علاقوں میں نو گھنٹے تک بجلی نہیں تھی اور کے الیکٹرک کا کال سینٹر بند ہو گیا یا قصداً ناکارہ بنا دیا گیا ۔ فون مل ہی نہیں رہا تھا ۔ موبائل کے ذریعے شکایت پر سب کو ایک ہی جواب ملتا کہ آپ کے علاقے کی بجلی فنی خرابی کی وجہ سے بند ہے ہمارا عملہ مستعدی سے کام کر رہا ہے ۔ ایک سے زیادہ مرتبہ یہ شکایت کرنے پر شکایت نمبر یا ٹکٹ نمبر دے دیا جاتا اور اس سے زیادہ شکایت کرنے پر غالباً نمبر ہی بلاک کر دیا جاتا ہے تاکہ لوگ شکایت ہی نہ کریں۔پاکستان کا معاشی حب ڈوب گیا۔ شہرکراچی میں کے الیکٹرک کے 4سو فیڈر ٹرپ ہو گئے ۔ لوگوں کی جان جانے کی تو اب خبر بھی اس وقت تک بڑی نہیں ہوتی جب تک درجنوںمیں نہ ہوں پانچ چھ جانیں تو گنتی میں نہیں ۔ کے الیکٹرک ویسے بھی اب کرنٹ لگنے سے ہلاکتوں کی ذمے داری نہیں لے گی ۔ کیونکہ وہ بل پر بھی لکھ دیتی ہے کہ بارش میںکھمبوں کے قریب نہ جائیں ، احتیاط نہیں کریں گے تو نقصان کے خود ذمے دار ہوں گے ، اب کے الیکٹرک بھی احتجاج اور مظاہروں سے آگے کی بات ہوتی جارہی ہے کیونکہ جب عدالتیں ، ادارے اور حکومتیں اپنا کام نہیںکریں گی ۔ عوام کو سہولتیں اور تحفظ فراہم نہیں کریں گی تو لوگ قانون خود اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں ۔ اور جب قانون ہجوم کے ہاتھ میں ہو تو خرابیاں بڑھ جاتی ہیں ۔ حکمرانوں کی خاموشی اور اطمینان دیکھ کر تو یہی لگتا ہے کہ ان کی بلا سے لوگ سڑکوں پر بہہ جائیں یا پانی گھروں میں گھس جائے ان کے گھروں کے جنریٹر بھی کام کر رہے ہیں اورمکان بھی محفوظ ہیں ۔ شہر کی جس سڑک پر نظر ڈالی جائے وہاں پانی ملے گا اور گاڑیاں پھنسی ہوئی ملیں گی ۔ اس قدر برا حال ہے کہ ہر بارش کے بعد ایسا لگتا ہے کہ کسی زلزلہ یا سونامی زدہ شہر کی کیفیت ہے ۔ ٹوٹی پھوٹی سڑکیں غلاظت کے ڈھیر ، پانی کے جوہڑ ، اُبلتے گٹر ، نلکے سے گٹر کے پانی کی ملاوٹ والے پانی کی فراہمی ۔ تیز بہائوکی وجہ سے گھروں اور فلیٹوں کے زیر زمین ٹینکوں میں گٹر کا پانی داخل ہو گیا ۔ایک دو دن صرف چند گھنٹوں کی بارش اور بحالی کا کوئی نظام نہیں۔ الخدمت کے سوا کوئی نظر نہیں آیا ۔ آسیب سے تو چھٹکارا مل گیا لیکن آسیب زدہ شہر کے باسی اب بھی قید میں ہیں ۔ اپنی قید انہیں خود توڑنا ہو گی ۔میئر کراچی وسیم اختر نے تو ہاتھ کھڑے کر دیے کہ نالے صاف کرنا ان کا کام نہیں ۔ سوال یہ ہے کہ ان کا کام ہے کیا؟ عالمی بینک نے بھی کراچی کے نالوں کی صفائی کے لیے رقم مختص کی ہے ۔ وہ رقم کہاں گئی ۔ میئر کراچی سے بڑھ کر وزیر بلدیات ناصر حسین شاہ ہیں ۔ نام سے ظاہر ہے کہ وہ سید ہیں ۔ تاہم گزشتہ اتوار کی بارش کے جو مناظر ذرائع ابلاغ میں دکھائے گئے ، ان کا کہنا تھا کہ90 فیصد تصاویر اور مناظرپچھلی بارشوں کے ہیں ۔ اتنا بڑا جھوٹ انہیں زیب نہیں دیتا ۔ پیر کو ا ن بارشوں نے جو تباہی مچائی اس کے بارے میں بھی کہہ دیںکہ جو دکھایا گیا وہ سب جھوٹ ہے ، یہ کراچی کے مناظر ہی نہیں ۔ کہنے میں کیا جاتا ہے ۔ شہر کے کئی علاقوںمیں کشتیاں چل گئیں ۔ شاید یہ بھی غلط ہے ۔