ایاصوفیا کے بعد اگلی منزل مسجد اقصیٰ

294

تنویر انجم

جمعہ 24 جولائی کا دن پورے عالم اسلام نے ’’یومِ عید‘‘ کی طرح منایا۔ ترک حکومت اور عدالتی فیصلے کے مطابق ایا صوفیا کی مسجد کے طور پر حیثیت بحال ہونے کے بعد شدید دباؤ اور یونان و امریکا سمیت کئی ممالک کی تنقید کے باوجود ترک صدر نے نماز جمعہ کے اجتماع کی تاریخ کا اعلان کرکے جہاں مسلم امہ کے لیے خوشی کا سامان میسر کیا، وہیں اس اعلان پر عمل کے موقع پر ایا صوفیا میں نماز کی ادائیگی سے قبل دیے گئے خطبے میں ترکی کے وزیر مذہبی امور پروفیسر ڈاکٹر علی ایرباش نے ہاتھ میں تلوار تھام کر خطبہ جمعہ دیا تو دنیا بھر میں یہ روح پرور منظر دیکھنے والوں پر جلال طاری ہوگیا اور اس تلوار نے اسلام دشمنوں کے دلوں کو چیر کر رکھ دیا۔ پروفیسر ڈاکٹر علی ایرباش نے خطبہ جمعہ کے دوران قسطنطنیہ (استنبول) فتح کرنے والے سلطان محمد فاتح کی یادگار تلوار ہاتھ میں تھامے رکھی۔ خطبہ دینے کا یہ انداز خلافت عثمانیہ کے دور کی ایک روایت ہے اور اسے فتح کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ ایک جانب اس تلوار نے امریکا اور اس کے ہم نواؤں کو شدید تکلیف میں مبتلا کر دیا جب کہ دوسری طرف یہ مسلمانوں کے اتحاد کو تقویت اور اعتماد دینے کا پیغام کا باعث بھی بنی ہے۔
86 برس بعد ایاصوفیا میں نماز کی ادائیگی کے موقع پر د نیا بھر میں کروڑوں مسلمانوں کی خوشی دیدنی تھی۔ 1934ء کے بعد پہلی بار نماز ادا کرنے کے موقع پر ترک صدر رجب طیب اِردوان کے علاوہ  ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ اس موقع پر سیکورٹی کے بھی انتہائی سخت انتظامات کیے گئے تھے۔ ترک میڈیا کے مطابق ایا صوفیا میں نماز جمعہ کے موقع پر اطراف میں لوگوں کی زبردست بھیڑ کی وجہ سے مسجد کے احاطے میں مزید افراد کے داخلے پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ اس اہم موقع پر مغرب کے زیر اثر میڈیا پر سوگ کا سماں تھا جب کہ غیر جانب دار میڈیا نے اسے مسلمانوں کے دل و روح پر لگے گہرے زخم پر مرہم کے مترادف قرار دیا، جو سیکولر ازم کے لبادے میں کمال اتاترک اور اس کے مذہب دشمن ساتھیوں کے ہاتھوں ایا صوفیہ کو عجائب گھر میں تبدیل کرکے لگایا گیا تھا۔امریکا و یورپ کے کئی شہروں میں صف ماتم بچھی رہی کہ اتاترک کی میراث سیکولر ازم خطرے میں اور سلطان محمد فاتح کی روح خوش ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ برطانیہ، فرانس اور دنیا کے مختلف ممالک میں کیتھولک اور پروٹسٹنٹ مسیحیوں نے اپنے گرجا گھر مسلمانوں کو فروخت کیے اور انہیں مسجد بنانے کی اجازت دی، تب مغربی میڈیا نے کبھی برا منایا اور نہ ہی کسی لبرل سیکولر نے اپنا سینہ پیٹا، لیکن آج ایا صوفیا میں دی گئی اذان سے دنیا بھر میں ’’اللہ اکبر‘‘ کی صدائیں بلند ہوئیں تو اسلام مخالفین کی نفرت کھل کر سامنے آ گئی۔ترک صدر اور ان کی حکومت کے خلاف عالمی سطح پر پروپیگنڈا شروع کردیا گیا۔ کہیں ترک پرچم نذر آتش کیے گئے تو کہیں مخالفت میں احتجاجی مظاہرے برپا کیے گئے۔
امریکا نے ترک عدالت کے فیصلے کے فوراً بعد اپنی اصلیت ظاہر کرتے ہوئے ردعمل میں مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایا صوفیا کی حیثیت میں تبدیلی کرنا افسوس ناک ہے۔ وزارت خارجہ کی خاتون ترجمان مورگن اورٹیگس نے اظہار مایوسی کرتے ہوئے کہا کہ ہم امید کرتے ہیں کہ ترک حکومت ایا صوفیا تک تمام سیاحوں کو جانے کی اجازت دینے کی موجودہ صورت حال برقرار رکھے گی۔ ساتھ ہی یونان نے بھی اسلام دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایاصوفیا کو مسجد میں تبدیل کرنے کی مذمت کی۔ یونانی حکام کی جانب سے ترک حکومت کے فیصلے پر تنقید کی گئی جب کہ ایک شہر دیزالونکی میں ترک پرچم جلانے کے لیے مظاہرہ کیاگیا۔
ترکی کی جانب سے ایاصوفیا کی حیثیت بطور مسجد بحال کرنے کے خلاف کئی ممالک میں امریکی اور اسرائیلی ہم نواؤں کو بے چینی ہے، لیکن سب سے زیادہ تکلیف یونان کو محسوس ہو رہی ہے۔ مسجد میں نماز کا اجتماع ہوتے ہی ایتھنز حکومت ترکی پر پابندیاں لگوانے کے لیے عالمی حمایت حاصل کرنے کی کوششیں شروع کر چکی ہے۔ ایاصوفیا میں نمازوں کی اجازت کے اعلان کو سنگین غلطی قرار دیتے ہوئے یونان نے کہا ہے کہ عالمی سفارت کاروں کو صدر اِردوان کا راستہ روکنے کے لیے آگے بڑھنا چاہیے۔ امریکا سمیت یورپی ممالک میں موجود خوف کھل کر سامنے آ رہا ہے، جس کا ثبوت یونانی وزیر خارجہ نکولا ڈنڈیاس کا حالیہ بیان ہے جس میں انہوں نے کہا کہ ترکی کے صدر اِردوان عثمانیہ عہد کو زندہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور وہ ترکی کو خطے کا بادشاہ بنانا چاہتے ہیں جو بین الاقوامی قانون اور اخلاقیات کی نفی ہے۔
اُدھر ویٹی کن کے پوپ فرانسس، روس کے پیڑیاٹ کیریئل اور وائٹ ہاؤس سے لے کر کریملن تک نے ترکی کے اس اقدام کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ امریکی نشریاتی ادارے کی ایک رپورٹ میں بین الاقوامی تعلقات کے ماہر کانسٹینوس فلیمز نے کہا ہے کہ یونان کو اس معاملے میں امریکا اور دیگر یورپی اتحادیوں کی وہ حمایت نہیں مل سکے گی، جس کے لیے وہ کوشش کررہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کو حقیقت کا ادراک کر لینا چاہیے۔ ایاصوفیا کو مسجد میں تبدیل کرنا خالصتاً ترکی کا اندرونی معاملہ ہے۔ عالمی ثقافتی ورثے کی دیکھ بھال سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے بھی ترکی کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ثقافتی ورثے کی عالمی کمیٹی اس فیصلے کا جائزہ لے گی۔
ترک پارلیمان نے یونانیوں کے احتجاج پر سخت اعتراض کرتے ہوئے مظاہرین کو یورپ کی بگڑی ہوئی اولاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ بگڑی ہوئی قوم ایا صوفیا میں مسلمانوں کو نماز ادا کرتے نہیں دیکھ سکتی۔ ان لوگوں نے احتجاج کرتے ہوئے ترکی کے باوقار پرچم کو بھی نذرآتش کیا جو ناقابل معافی ہے۔ ان افراد نے اپنی تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ ترک وزارت خارجہ کے ترجمان حامی اکسوئے نے یونانی بیانات کو مسترد کرتے ہوئے ایک تحریری بیان میں کہا ہے کہ ’’یونان نے ایک بار پھر اسلام اور ترکی سے اپنی دشمنی ظاہر کردی ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ یونان خواب غفلت سے جاگ جائے۔ 567 سال کی طویل نیند سے بیدار ہونے کا وقت اب آ گیا ہے‘‘۔
عالمی صورت حال پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مغربی ممالک کی ایاصوفیا کی حیثیت بدلنے کے خلاف جاری تنقید کا تعلق عبادت سے زیادہ سیاست سے ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ مسلمہ قانون کے مطابق عالمی ورثہ قرار پانے کے باوجود ایاصوفیا پر ترکی کی ملکیت بدستور قائم ہے اور ترک عدالت کے حالیہ فیصلے کے باوجود یہ تاریخی ورثہ دنیا بھر سے آنے والے سیاحوں کے لیے کھلا رہے گا۔
ایاصوفیا میں اللہ اکبر کی صدائیں گونجتے ہی ترک صدر رجب طیب اِردوان نے ایک اور اعلان کرکے جہاں امریکا، اسرائیل اور اس کے حواریوں کے ناپاک منصوبوں پر ضرب لگائی ہے، وہیں امت مسلمہ کے لیے بھی متحد ہونے اور اغیار کی سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک رُخ متعین کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایاصوفیا میں نماز کے اجتماعات شروع ہونے کے بعد اب ہماری اگلی منزل مسجد اقصیٰ کی آزادی ہے۔ ترک صدر کے مسجد اقصیٰ کی آزادی سے متعلق بیان کے بعد اسرائیل میں بھی کھلبلی مچ چکی ہے۔ صہیونی رہنما شدید بوکھلاہٹ کا شکار ہیں اور وہاں بھی میڈیا کے ذریعے ترکی پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ عالمی سیاست میں اس وقت ترکی اور اس کے صدر رجب طیب اِردوان واحد رہنما ہیں، جنہوں نے نام نہاد سفارتی تقاضوں نظر انداز کرنے کے ساتھ امریکا اور دیگر ممالک کے شدید دباؤ کے باوجود مظلوم فلسطینیوں کے حق میں نہ صرف بیان دیا بلکہ عملی طور پر غزہ کے محصور مسلمانوں کی کھل کر امداد کی۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں صہیونی ریاست کے اسلام دشمن عزائم کا پردہ فاش کیا۔ اسی طرح ترک صدر نے بھارت سے تجارتی تعلقات کی بھی پروا نہ کرتے ہوئے مظلوم کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کی حمایت کرتے ہوئے بھارتی فوج کے مظالم کی مذمت کی۔ انہوں نے رواں برس فروری میں دورہ پاکستان کے دوران پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں مقبوضہ کشمیر پر پاکستانی مؤقف کی حمایت کی تھی اور کہا تھا کہ کشمیر ترکی کے لیے ایسا ہی ہے جیسا پاکستان کے لیے ہے۔
ترک صدر نے ایک روز قبل ہی مغربی ممالک خصوصاً یونان کی جانب سے ترک مخالف محاذ قائم کرنے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ہماری کسی کی سر زمین اور قدرتی وسائل پر نظریں نہیں ہیں، تا ہم اپنے مفادات کی جانب کسی کو ہاتھ بڑھانے کی ہم ہر گز اجازت نہیں دیں گے۔ ترکی کے خلاف شور مچانے والے ممالک کا ہدف ایاصوفیا یا پھر مشرقی بحیرۂ روم نہیں، بلکہ دراصل تُرک قوم اور مسلمانوں کا جغرافیہ ہے۔
ایاصوفیا کی مسجد کی حیثیت سے بحالی اور نمازوں کے شروع ہونے کے بعد جہاں مسیحیوں میں بے چینی پائی جا رہی ہے اور اسلام دشمن قوتیں ایک بار پھر مسلمانوں کے خلاف کھل کر سامنے آ گئی ہیں، ایسے میں کسی بھی طرح کے دباؤ یا مفاد کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ترک صدر نے اپنے وعدے پر عمل کرکے خود کو بہترین رہنما ثابت کیا ہے، وہیں شرعی حکم کی پیروی بھی کی ہے کہ زمین پر جہاں ایک بار سجدہ گاہ بن جائے تو وہ مقام قیامت تک مسجد ہی رہے گا اور اس کی حیثیت کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ ایک باعمل مسلمان کی بڑی خوبی یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ اپنے اقتدار یا دنیاوی مفادات کی پروا نہ کرتے ہوئے مسلمانوں کے اجتماعی اور دینی تقاضوں کو اہم سمجھتا ہے اور ترک صدر اس خوبی کے حامل رہنما ثابت ہوئے ہیں۔
رجب طیب اِردوان، آپ کا شکریہ