ملک میں جمہوریت کے نام پر آمریت کا نظام؟

235

قموس گل خٹک
میں پوری زندگی ترقی پسند قوم پرستانہ سوشلسٹ نظریے کی سیاست سے وابستہ رہا اور یہ محسوس کرتا رہا کہ ہمارے ملک میں سیاسی قوت کے مقابلے میں غیر سیاسی قوتیں ہر دور میں زیادہ منظم اور فیصلہ کن قوت کی مالک رہی ہیں۔ اس میں بڑا کردار ہمارے سیاسی قائدین کا ہی رہا ہے ان غیر سیاسی قوتوں نے ناپسندیدہ جماعتوں کو محدود یا وفاقی حکمرانی سے دور رکھنے کے لیے لکیر کھینچ رکھی ہے جوعام آدمی کو نظر نہیں آتی۔ مگر اس کو کراس کرنا آسان کام نہیں۔ اگر کسی سیاستدان نے خود کو عوامی نقطہ نگاہ سے طاقتور جان کر اس لکیر کو پار کرنے کی کوشش کی ہے تو اس کا انجام بھی عوام کے سامنے ہے۔
سیاسی کارکن کی حیثیت سے جب ہم سوچتے ہیں کہ ستر سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد بھی ہمارا ملک سیاسی اور اقتصادی طورپر کہا کھڑا ہے اور ہمارے بعد آزاد ہونے والے کئی ممالک ہم سے ہر محاذ پر آگے نکل گئے ہیں تو افسوس ہوتا ہے مگر ہر آنے والی حکومت وہی کچھ کرتی ہے جو ان سے کرایا جاتا ہے یا جو پہلے والے کرتے تھے تبدیلی کے دعویدار جب مسند اقتدار تک پہنچ گئے تو عوام سے کے گئے تمام وعدوں سے منحرف ہوکر فرمانے لگے کہ یوٹرن یعنی جھوٹ بولنا کامیاب سیاست ہے یہ تو عوام کو کسی حدتک معلوم تھا کہ ہمارے ملک کی سیاست اور کرپشن میں ان ٹوٹ رشتہ قائم ہے جو کروڑوں روپیہ خرچ کرکے قومی یا صوبائی سطح پر منتخب ہوگا وہ یہ خطیر رقم کی وصولی اور آئندہ سیاست میں رہنے کے لیے کرپشن کی چادر اوڑھے گا یا جس نے کسی پاپولر جماعت سے انتخابی ٹکٹ حاصل کرنے کے لیے پارٹی فنڈ کے نام پر کروڑوں جمع کیے ہیں وہ بدعنوانی کیے بغیر موجودہ نظام میں نہیں چل سکتا اس لیے پھر سوچتا ہے کہ اس حمام میں دوسروں کو دیکھ کر ویسے ہی بن جاؤ پھر بھی بہت سے منتخب نمائندے کرپشن میں ملوث نہیں ہیں۔
جوپارٹیاں عوامی فلاح وبہبود کے نام پر عوام سے ووٹ لے کر برسراقتدار آئی ہیں اور حکمران بننے سے پہلے بڑی بڑی تبدیلیوں کی باتیں کرتی تھی انہیں علم نہیں تھا کہ ان تبدیلیوں کے لیے ان قوتوں کی رضامندی لازمی ہے جو عوامی ووٹ کے بغیر طاقت کا سرچشمہ ہیں۔ جیساکہ پی ٹی آئی کے اقتدار میں آنے سے پہلے اسد عمر صاحب اس جماعت کے وزیر خزانہ سمجھے جاتے تھے پھر اس نے اس عہدے کا حلف بھی اٹھالیا۔ مگر اس کوہٹاکر ایک ایسے شخص کو اس کی جگہ مشیر مقرر کیا گیا جس کا پی ٹی آئی کی سیاست سے کبھی کوئی تعلق نہیں رہا اس کے علاوہ متعدد غیر منتخب لوگوں کو باہر سے بلواکر اہم ترین قلمدان کے مشیر یا معاون خصوصی مقرر کیے گئے یہ ہماری جمہوریت ہے ؟ اور وزیر اعظم صاحب کے قربت کے دعویدار تو کشمیر کمیٹی کے چیئرمین بننے پر بھی خوش ہیں یہ سب کیوں اور کس طرح ہورہاہے اس کا جواب ملک کے عوام کو کبھی نہیں ملا اور نہ مستقبل میں اس کا امکان ہے جو کبھی ملک میں نظریاتی سیاست کی بات ہوا کرتی تھی وہ تقریباً ختم ہوچکی ہے البتہ نظریاتی لوگ موجود ہیں جو محترم رضاربانی جیسے بڑے پارٹی میں رہتے ہوئے بھی سوچ کی وجہ سے اکیلے نظر آتے ہیں۔ اب تو بحیثیت مجموعی ملک کی سیاست کو کاروباری اور کرپشن کے حوالے سے بدنام کیا جارہاہے ۔ موجودہ حکومت تو خاص طورپر بلیم گیم مخالفین پر ذاتی الزامات اور مقدمات بناکر اپنی مدت پوری کرنا چاہتی ہے عوام کہتی ہے کہ موجودہ وفاقی حکومت کی ناقص کارکردگی مہنگائی بے روزگاری سے تنگ عوام کو اگر صوبہ سندھ میں کرپشن بے روزگاری مہنگائی اور پولیس کی زیادتیوں سے حکمرن چھٹکارہ دلوادیتے تو عوام کی بڑی تعداد یہ دیکھ کر دوبارہ پیپلز پارٹی کو مضبوط کردیتے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ صرف آصف علی زرداری صاحب یہ کام کرسکتے ہیں جو اپنی پارٹی پر مکمل سیاسی کنٹرول رکھتے ہیں ۔مگر ابا تک ایسا نہیں ہوا یہ المیہ ہے ۔
موجودہ صورتحال میں اگر عوام احساس پروگرام ، بی آر ٹی وغیرہ میں کرپشن کی بات کرتے ہیں تو سندھ میں راشن کی تقسیم میں کرپشن کورونا کے نام پر مزدوروں کی بے روزگاری اور حقوق سے محرومیاں سہ فریقی ویلفیئر اداروں پر غیر نمائندہ افراد کو مسلط کرکے بدعنوانیوں کا گڑھ بنانے شکایات کے مطابق سکھر اور لاڑکانہ ریجن میں خاص طورپر جعلی اسکیموں کے ذریعہ کھلے عام کرپشن سہ فریقی ویلفیئر اداروں کے فنڈ ز کو کورونا کے حوالے سے استعمال کی خبریں، ڈیتھ گرانت، جہیزگرانٹ، اسکالر شپ اور مکانات الاٹمنٹ میں بے ضابطگیاں بدعنوانی مائینز لیبر ویلفیئر آرگنائزیشن کے فنڈز کانکنوں پر خرچ نہ کرنے کی وجہ سے اس ادارے کے لیبر ویلفیئر بورڈ کو پندرہ سال معطل رکھ کر سالانہ بجٹ کو ٹھکانے لگانے کے بعد اگر حکمران جمہوریت اور مزدور دوستی کی بات کریں تو کون مانے گا ماسوائے ان خوشامدیوں کے جو سہ فریقی ویلفیئر اداروں میں لوٹ کھسوٹ میں کسی طرح بھی شریک ہوں ؟ جومزدور کے فلاح وبہبود کے اداروں میں جمہوری روایات سے خوفزدہ ہوں وہ ملکی یا صوبائی سطح پر جمہوریت کیسے نافذ کرسکتے ہیں۔ ان حالات میں عوام سیاستدانوں سے نفرت کرنے لگے ہیں۔ مگر انتخابات کے موقع پر ووٹ تو ڈالنا قومی ذمہ داری ہے ہم مزدور طبقے کے نقطہ نظر سے یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ اس ملک میں پرویز مشرف صاحب کے آمرانہ دور میں صنعتی مزدوروں کو سہ فریقی ویلفیئر اداروں اور حکومتوں سے جوفوائد اور مراعات ملے ہیں ۔ان کو اس لیے نہیں بھلایا جاسکتا کہ بعد میں سفید پوش اور نام نہاد منتخب ڈکٹیٹروں نے عوام خصوصاً مزدور طبقے کو کچھ بھی نہیں دیا بلکہ محکمہ لیبر کو سرمایہ داروں کی وکالت کرنے کا ادارہ بنادیا ہے جس کی وجہ سے متاثرہ مزدوروں کے دادرسی کا ذریعہ بھی ختم ہوچکا ہے۔ سہ فریقی ویلفیئر ادارے مزدوروں کو مالی امداد کے بجائے غیر موثر اور حکمرانوں کے ایجنڈے پر کام کررہے ہیں۔ جمہوریت اور مزدور دوستی کے نعرے میڈیا تک محدود ہوچکے ہیں۔ سابقہ مزدور لیڈر کا وزیر محنت بننا خوش آئند مگر مزدوروں کے لیے فائدہ مند نہیں ہوا خدا کرے کہ اس کومزدوروں پر ہونے والے مظالم نظر آجائیں۔ اور کم از کم سہ فریقی ویلفیئر اداروں میں صنعت کاروں کے فنڈ ز کو ہی بلاامتیاز مزدور طبقے پر خرچ کرنے کے لیے اپنی بہترین صلاحیتوں کو استعمال میں لائیں ہمیں توقع ہے۔