پہلی مسلمان با حجاب جج

664

چالیس سالہ وکیل رفیعہ ارشد کو اس پیشے میں 17 سال گزرنے کے بعد گذشتہ ہفتے مڈلینڈز ایریا کا ڈپٹی جج مقرر کیا گیا تھا۔
انہوں نے میٹرو کو بتایا، ’یہ یقینی طور پر میرے لیے بڑی بات ہے۔ میں جانتی ہوں کہ یہ صرف میرے بارے میں نہیں ہے۔ یہ تمام خواتین، صرفمسلمان نہیں بلکہ عورتوں کے لیے اہم ہے۔‘
اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب وہ کمسن بچی تھیں تو انہیں ڈر تھا کہ معاشرے کے محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے اور نسلی طور پر اقلیتی پس منظر رکھنے کی وجہ سے وہ اس پیشے میںتنہائی کا سامنا کر سکتی ہیں۔
نئی جج نے کہا کہ وہ چاہتی ہیں کہ وہ اپنے پلیٹ فارم کو استعمال کرکے ’اس بات کو یقینی بنائیں گی کہ تنوع کی آواز صاف اور اونچی طور پر سنی جائے۔
مس رفیعہ نے کہا کہ اس تقرری کے بارے میں بہت سارے مثبت ردعمل سامنے آنا ان کا سب سے بڑا انعام تھا۔
انہوں نے اخبار کو بتایا، ’مجھے لوگوں، خواتین اور مردوں کی طرف سے بہت سی ای میلز موصول ہوئی ہیں۔ سب سے زیادہ توجہ اپنی طرف مبذول کرنے والی ای میلز ان خواتین کی ہیں جن کا کہنا ہے کہ وہ حجاب پہنتی ہیں اور یہ سوچ بھی نہیں سکتی تھیں کہ وہ بیرسٹر کے طور پر بھی کام کرسکتی ہیں جج بننا تو دور کی بات تھی۔‘
لندن میں قانون کا تربیتی کورس مکمل کرنے کے بعد انہوں نے 2002 میں وکیل کی حیثیت سے کام کرنا شروع کیا اور 2004 میں سینٹ میری فیملی لا آفس میں شمولیت اختیار کر لی۔
اپنے کیریئر کے دوران انہوں نے قانون کے مختلف شعبوں جن میں بچوں کے نجی حقوق، جبری شادی، اور اسلامی قانون شامل ہیں، میں کام کیا۔
لیکن ان کا کہنا ہے کہ اچھے کام اور تجربے کے باوجود انہیں امتیازی سلوک اور تعصب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کیسے بعض اوقات کمرہ عدالت میں انہیں مؤکل یا مترجم سمجھا جاتا ہے۔ ایک عدالتی گائیڈ نے بھی انہیں یہی سمجھا۔
مس رفیعہ نے کہا: ’مجھے اس عدالتی گائیڈ سے کوئی پریشانی نہیں ہے لیکن یہ دراصل ہمارے معاشرے کی عکاسی کرتا ہے اور وہ بھی اس شخص کے بارے میں جو عدالت میں کام کرتا ہے۔ اس میں پیشہ ور افراد سے توقع نہیں کی جاتی ہے کہ وہ میرے جیسے نظر آئیں۔ میری رائے میں امپوسٹر سینڈروم ان عوامل میں سے ایک ہے جو خواتین کو روکتا ہے۔ میں نے متعدد بار کمرہ عدالت میں خود سے پوچھا ہے کہ کیا میں اتنی اہل ہوں۔‘
مس رفیعہ نے 2001 میں اپنے کیریئر کے ایک اہم لمحے کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ جب قانون کے مطالعہ کی اسکالرشپ کے لیے انٹرویو کے لیے جاتے وقت گھر کے ایک فرد نے انہیں حجاب نہ پہننے کا مشورہ دیا، کیوں کہ ان کے خیال میں یہ ان کی کامیابی کے امکان کو متاثر کرسکتا ہے۔