ایک قائد اور چاہیے

420

کشمیر کی بات کہاں سے شروع کریں‘1931 سے‘ جب دھرتی خون سے رنگی گئی‘ کیا یہ بات 1948 سے شروع کریں جب بھارتی فوج کے ناپاک قدم اس زمین پر پڑے۔ بات کہیں سے بھی شروع کی جائے قربانیوں‘ جدوجہد اور شہداء کے تذکرے کے بغیر بات مکمل نہیں ہوگی‘ ہاں مگر جوں جوں جدوجہد آگے بڑھ رہی ہے‘ شہداء بھی میدان میں ہیں اور مصلحت کار بھی، اب مقابلہ شہداء اور مصلحت کاروں میں ہے۔ تو تیر آزما ہم جگر آزمائیں والی بات ہے۔ اس سے کم پر بات نہیں ہورہی ہے۔ جب مظفر وانی شہید ہوتا ہے تو بھارتی فوج کو اطلاع دینے والا کردار بھی فراموش نہیں ہوگا‘ مظفر کی شہادت کا کوئی یہ پہلا واقعہ نہیں ہے، جب بھی گھروں کا محاصرہ ہوا اور کسی مجاہد کی شہادت پر یہ محاصرہ منتج ہوا تو سمجھ لیجیے کہ اطلاع دینے والا کردار شہید مجاہد کا کوئی قریبی شخص ہے۔ کشمیر مجاہد اور مودی دو کردار اس وقت باہم برسر پیکار ہیں اور کامیابی کشمیری مجاہدین کو ملے گی‘ یہ بات طے ہوچکی ہے کہ سری نگر مجاہدین کا ہے‘ مودی کا نہیں ہے‘ کشمیری حریت پسندوں اور حریت کانفرنس کو جہاں کشمیر کی آزادی کی تلاش ہے وہیں انہیں غدار کرداروں کو بھی تلاش کرنا ہوگا اور بے نقاب کرنا ہوگا۔
دنیا بھی میں کشمیری عوام جولائی میں یوم الحاق‘ یوم شہداء اور پانچ فروری کو یوم یک جہتی مناتے ہیں‘ اب اگست میں یوم مذمت بھی منائیں گے‘ پانچ اگست کا بدترین دن مودی سرکار کے فیصلے کی وجہ سے اب کشمیر کی تاریخ کا حصہ بن چکا ہے اور یہ بات بھی تاریخ کا حصہ بن چکی ہے کہ کون لوگ تھے جنہوں نے پانچ اگست کے فیصلے کے خلاف جرأت کے بجائے مصلحت کی چھتری تان لی‘ اور کہا کہ جو کنٹرول لائن کے پار جائے گا وہ کشمیریوں کا غدار ہوگا‘ ہمیں بطور قوم اور ہماری حکومت کو بطور وکیل اب مصلحت کا لبادہ اتارنا ہوگا‘ اگر وہ یہ نہ کرسکیں تو مظفر آباد میں عید منانا ایک بے مقصد عمل بن جائے گا۔ سری نگر‘ بارہ مولا‘ پلوامہ‘ کپواڑہ اور مقبوضہ کشمیر کا چپہ چپہ ہم سے حساب مانگنے میں حق بجانب ہے کہ ہم میدان میں آنے کے بجائے کنارے پر کھڑے ہوکر تماشا کیوں دیکھ رہے ہیں۔ پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی کے کل اٹھائیس ارکان ہیں‘ ان میں کتنے ہیں جنہوں نے سری نگر کے لیے کوئی اخباری بیان ہی جاری کیا ہو؟ ان میں کتنے ہیں جو کشمیریوں کے ساتھ یک جہتی کے لیے مظفر آباد پہنچے ہوں؟ کتنے ہیں جو کنٹرول لائن پر بھارتی فوج سے زخمی اور شہید ہونے والوں کے گھر پہنچے ہوں؟ ہاں البتہ کشمیر کے نام پر یورپ کا دورہ ہو تو کیا سیاسی رہنماء، کیا میڈیا پرسن، کیا تاجر رہنماء ہم سب تیار ہوجائیں گے بات دورے کی نہیں‘ مظفر آباد میں عید منانے کی بھی نہیں ہے‘ بات اپنی جدوجہد کو بامقصد بنانے اور اپنے عہد کی تجدید کی ہے کہ عہد کیا جائے کشمیر پاکستان کا حصہ ہے اور پاکستان سے الحاق کے لیے ہمیں کیا کرنا ہے؟
ہم نے تیرہ جولائی بھی دیکھا اور انیس جولائی بھی گزر گیا‘ یہ دن ہر سال آتا ہے اور گزر جاتا ہے‘ وزیر اعظم‘ صدر مملکت‘ اور وزیر کشمیر کے پیغام آجاتے ہیں‘ پیغام پرانے ہوتے ہیں صرف نام اور تاریخ تبدیل ہوتی ہے‘ کیونکہ یہ کام برس ہا برس سے سرکاری ملازمین کے ہاتھوں ہی ہوتا ہے‘ لہٰذا وہ پرانے بیان نکالتے ہیں اور نام تاریخ تبدیل کرکے جاری کر دیتے ہیں‘ یوں ہمیں ہر حکومت کے ایک پیج پر ہونے کا پیغام مل جاتا ہے‘ مگر دعویٰ یہی کیا جاتا ہے کہ ماضی میں حکمرانوں نے کچھ نہیں کیا‘ اس بار بھی پیغام جاری ہوئے مظاہرے ہوئے‘ تقاریب ہوئیں وزیراعظم عمران خان نے یوم الحاق پاکستان کے موقع پر اپنے پیغام میں کہاکہ کشمیریوں کی بھارتی حکومت کے مظالم کیخلاف جدوجہد میں ساتھ دیتے رہیں گے۔ کشمیریوں کا حق خودارادیت اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل نے تسلیم کررکھا ہے۔ پاکستان کشمیریوں کے ساتھ کھڑا ہے۔ کشمیریوں کو ایک دن ضرور انصاف ملے گا۔
صدر عارف علوی نے اپنے پیغام میں کہا کہ وہ دن دور نہیں جب مقبوضہ کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق ہوگا‘ ماضی میں جاری ہونے والے اور اب آج جاری ہونے والے سرکاری بیانات میں فرق کیا ہے؟ ہمیں چاہیے کہ ہم جانیں اور نوجوان نسل کو بتائیں کہ19جولائی 1947ء کیا تھا؟ جب سردار محمد ابراہیم خان کے گھر سرینگر میں کشمیری عوام کی نمائندہ تنظیم ’’مسلم کانفرنس‘‘ کا تاریخی اجلاس ہوا اورپاکستان سے الحاق کی قرارداد پیش کی، جسے متفقہ طور پر منظور کیا تھا یہ قرارداد پاکستان بننے سے ایک ماہ قبل پیش ہوئی اور منظور کی گئی‘ پھر کیا ہوا 27 اکتوبر1947ء کو بھارت نے کشمیر پر فوج کشی کی اور ریاست کے بڑے حصے پر قبضہ کرلیا پھر بھارت رائے شماری کا وعدہ لے کر خود ہی یہ معاملہ اقوام متحدہ میں لے گیا اور بھارت نے اس پر آج تک عمل نہیں کیا اب اقوام متحدہ کو اپنا بھی جائزہ لینا ہوگا اس نے 50 کی دہائی میں اس متنازع وادی کو خصوصی حیثیت دیکر آئین میں بھارت کا حصہ ڈکلیئر کردیا اور استصواب سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ مقبوضہ کشمیر میں بلدیاتی اور ریاستی انتخابات ہوتے ہیں یہ عجوبہ بھی ریاستی انتخابات میں ہوا کہ ایک امیدوار صرف چھ ووٹ لے کر جیت گیا تھا۔ انتخابات میں کشمیری عوام کی لاتعلقی کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے بھارت کو ان یکطرفہ طور پر کرائے جانیوالے انتخابات اور اس کے نتیجے میں حکومت بنانے والی اپنی کٹھ پتلی جماعتوں پر بھی اعتبار نہیں جس کا ثبوت آج کی صورتحال ہے۔ مودی سرکار کا کشمیریوں کو جبراً اپنے ساتھ ملائے رکھنے کا خبط ہے بھارت کا خبط توڑنے کے لیے ہمیں جرأت مند قیادت چاہیے جو بیان نہ دے بلکہ عمل کرے گزشتہ سال مودی سرکار نے آئین میں ایک اور ترمیم کرکے خصوصی حیثیت بھی ختم کر دی کشمیریوں کے لیے یہ ترمیم زہر قاتل کا درجہ رکھتی ہے۔
وزیراعظم آزاد کشمیر فاروق حیدر نے یوم الحاق پاکستان کے موقع پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ پالیسی کے تحت 700 سال تک کشمیر آزاد نہیں ہو سکتا۔ بادی النظر میں تو ایسا ہی ہے پاکستان کو اب کشمیر کی آزادی کے لیے مذاکرات سے ہٹ کر کچھ کرنا ہوگا ہمیں بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی کمٹمنٹ کو حرزجاں بنانے کی ضرورت ہے ورنہ دوسری صورت میں فاروق حیدر کا 700 سال والا بیان سامنے رہنا چاہیے۔