گوانتانا موبے کے محافظ

962

لاپتا افراد! کس قدر کرب پوشیدہ ہے ان لفظوں میں۔ اس کرب کی شدت کو محسوس کرنا چاہیں تو کسی لاپتا فرد کے اہل خانہ سے مل کر دیکھیے، زندہ لاش کیا ہوتی ہے، آپ کو سمجھ میں آجائے گا۔ ان کی داستانیں آپ کو زار زار رونے پر مجبور کردیں گی، آپ کی راتیںنیند سے نا آشنا ہوجائیںگی، بستر کروٹوں سے بے چین اور تکیے آنسوئوں سے بھیگ جائیں گے۔ اگر آپ اس کرب سے بچنا چاہتے ہیں تو کبھی بلوچستان کا سفر مت کیجیے گا، اور بلوچستان کیا یہ داستانیں تو اب ہر شہر اور محلے کا حصہ ہیں۔
وہ جو چند ڈالروں کے عوض اپنے ہی شہریوں کو امریکا کے حوالے کردیں، اپنے اقتدار کی بقا کے لیے ڈرون حملوں کی اجازت دے دیں، جامعہ حفصہ کی بچیوں کا محاصرہ کرکے انہیں بھون کر رکھ دیںان کے لیے اکا دکا اغوا، اکا دکا لاپتا کیا معنی رکھتا ہے لہٰذا اس پر سوال مت اٹھائیے۔ خاموشی سے دیکھتے رہیے۔ اپنی باری کا انتظار کیجیے۔ بلوچ شاعر عمران ثاقب کے الفاظ میں:
سفر صحرائی طوفاں میں گھرا ہے، لاپتا ہے
بشر اپنی ڈگر سے ہٹ گیا ہے، لاپتا ہے
طویل اک راستہ جس پر دھویں کا سلسلہ ہے
وہاں حد نظر جو فاصلہ ہے، لاپتا ہے
نظر دوڑائو تو اک دوڑ ہے جو بے اماں ہے
وہ اک ٹھیرائو سے جو واسطہ ہے، لاپتا ہے
ہجوم اک منتشر ریوڑ کی طرح چل رہا ہے
کہ ان میں سمت کا جو سوچتا ہے، لاپتا ہے
وہ جن کی روح جڑ سے مر چکی ہے پھر رہے ہیں
جو خود میں دفن ہو کر جی اُٹھا ہے، لاپتا ہے
دعا امراء کی بر آتی ہے مانگے سے بھی پہلے
زمیں پر جو غریبوں کا خدا ہے، لاپتا ہے
جہل بازار میں سب جھوٹ کے گاہک ہیں ثاقبؔ
جو اس ماحول میں سچ بولتا ہے، لاپتا ہے
سپاہ شام اب نیزوں پر سر نہیں سجاتیں، عافیت جاں کے خوف میں مبتلا کردیتی ہیں، زندگی کو دربدری اور قید خانوں تک وقف کردیتی ہیں۔ پیاروں کو اور ان کے خون کو لاپتا کردیتی ہیں۔ تا کہ قاتل خون بہا سے آزاد رہیں۔ پھر ہر منزل ہر راستے پر لاپتا افراد کی بیٹیاں روتی ہیں، بہنیں دروازوں پر سر پٹکتی ہیں، مائیں آنکھوں میں انتظار کے الائو سلگائے قبروں میں اتر جاتیں ہیں، بیٹوں کے سینوں میں غم کی آندھیاں اٹھتی رہتی ہیں، بھائیوں کے دل غموں کی قیام گاہ بن جاتے ہیں، باپ مرے ہوئوں کی صفوں میں جانے سے پہلے اس آرزو میں ہردن ہر لمحہ مرتے ہیں کہ اے کاش اپنے پیارے کی کوئی خبر مل جائے، خون کے چھینٹوں ہی کا سہی! کوئی سراغ تو ملے! لاپتا فرد ایک ان مٹ درد ہے جسے نہ وقت کم کرسکتا ہے اور نہ دلاسے۔
مطیع اللہ جان خوش قسمت ہیں کہ چھوڑ دیے گئے۔ ان کے لاپتا کیے جانے کے بعد سوشل میڈیا پر ایک طوفان اٹھا دیا گیا تھا۔ کیا یہ طوفان ان کی رہائی کا باعث بنا؟ ان کی گمشدگی کے وقت کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی منظر عام پر آگئی تھی۔ کیا یہ فوٹیج ان کی رہائی کا سبب بنیں؟کیا وزیراعظم اور عدلیہ کا نوٹس ان کی رہائی کا جواز بنا؟ نہیں، ایسا نہیں ہے۔ انہیں اسکول کے آگے سے اٹھایا گیا جہاں ہر وقت لوگوں کی آمدورفت رہتی ہے۔ اٹھانے والے چاہتے تو کسی سنسان جگہ سے بھی اٹھا سکتے تھے، لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ کیا اٹھانے والے سی سی ٹی وی کیمروں سے بے خبر تھے؟ نہیں، انہیں معلوم تھا کہ کیمرے اس اغوا کی ریکارڈنگ کررہے ہیں اس کے باوجود انہوں نے اپنی شناخت چھپانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ یہ اغوا نہیں ایک پیغام تھا سب کے لیے کہ ’’تم ہماری نظر میں ہو لہٰذا ہماری نظر سے دیکھو، ہمارے کانوں سے سنو، ہمارے دماغ سے سوچو اور وہ لکھو وہ بولو جو ہماری جناب میں گستاخی پر مبنی نہ ہو۔ جو ہمیں گراں نہ گزرے، جو ہمارے کرتوتوں کو دنیا اور عوام کے سامنے ننگا نہ کرے۔ ورنہ تم کہیں محفوط نہیں ہو، ہر جگہ تم ہماری دسترس میں ہو‘‘۔
طوالت کے لحاظ سے لاپتا افراد کے لواحقین کے لگائے گئے کیمپ طویل ترین مدت پر محیط ہوتے ہیں۔ ان کیمپوں میں تصویریں ہاتھوں میں لیے بیٹھے ہوئے لوگ بے بسی اور بے چارگی کی تصویر ہوتے ہیں۔ امید کی پرچھائیوں کے تعاقب میں، شاید، شاید… لوگوں کو اغوا کرنے سے، لاپتا کرنے سے، اداروں کو کیا حاصل ہوتا ہے۔ حکومتیں کیا فوائد سمیٹتی ہیں۔ سوائے اس کے کہ ان کا نام تاریخ میں جبر اور ظلم کی طاقتوں کے ساتھ منسلک ہوجاتا ہے۔ جن سے سب نفرت کرتے ہیں۔ اس طرح کے ہتھکنڈوں سے ریاست اور حکومت کو کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ ایک طرف سرمایہ داروں کو ملک میں سرمایہ کاری کی دعوت دی جارہی ہے، ملک کی معیشت کو درست کرنے کے دعوے کیے جارہے ہیں دوسری طرف عالمی سطح پر پاکستان کا ایک ایسا امیج پیش کیا جارہا ہے جہاں دن دھاڑے، دارالحکومت کی سڑکوں سے لوگوں کو اٹھایا جارہا ہے۔ جہاں کسی کی جان محفوظ ہے اور نہ مال۔ جہاں رائے کی آزادی ہے اور نہ قلم کی حرمت کا پاس۔ ایسے میں خوف کی اس جاگیر میں کون آئے گا۔ کون خود کو خطروں اور غیر یقینی کے سپرد کرے گا۔
یہ صرف پاکستان کا المیہ نہیں ہے اس نظام میں دنیا بھر میں ایسا ہی ہورہا ہے۔ اس نظام میں جو لوگ عافیت سے بیٹھنے کا خواب دیکھ رہے ہیں وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ انسانیت کی تذلیل وتوہین اور گمشدگی کا مسئلہ گمبھیر تر ہو چلا ہے۔ سچ کی ہلاکتیں اس قدر بڑھ گئی ہیں کہ یہ دنیا سچائی کا مقتل بن گئی ہے۔ سچ کو گہرا اور بہت گہرا دفن کرنے کے باوجود یہ لوگ خوفزدہ ہیں کہ سچ کہیں قبروں سے باہر جھانک کر نہ دیکھ لے۔ آنسوئوں، آہوں اور سسکیوں میں جینے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ عدل خاموش ہے یا پھر ظلم کا دایاں ہاتھ بنا بانسری بجارہا ہے۔ دنیا گوانتانا موبے کا قید خانہ بنتی جارہی ہے جہاں دنیا بھر سے سچائی کو پکڑ پکڑ کر زنجیر کیا جارہا ہے۔ اپنی سپاہ ہی اس اذیت کدے کی محافظ ہے۔ وہ لوگ جو ضمیر کی آواز کے ساتھ جینا چاہتے ہیں، جبر کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں، کلمہ حق بلند کرنا چاہتے ہیں، زمین پر اللہ سبحانہ تعالیٰ کا نظام نافذ کرنا چاہتے ہیں، حق کے لہجے میں بات کرنا چاہتے ہیں، حیات وکائنات کے دکھ درد کو اپنے اندر سمیٹ کر انسانیت کو نئی بلندیوں سے ہم کنار کرنا چاہتے ہیں، عزیزوں اور بچوں کو لاپتا افراد کے لیے احتجاج کرنے والوں کے کیمپوں کے سپرد کرنے اور خود کو قید خانوں کی اذیتوں میں فنا کی دلدل میں اترنے کے لیے تیار رکھیں۔ ان لوگوں پر سلام ہو۔
سلام ان پر تہہ تیغ بھی جنہوں نے کہا
جو تیرا حکم ہو، جو تیری رضا جو تو چاہے