پاکستان کا حکمران طبقہ اور امریکا

1114

چین اور افغانستان ہی نے نہیں پاکستان نے بھی امریکا کو ’’مشورہ‘‘ دیا ہے کہ وہ جلد بازی میں افغانستان سے انخلا کا عمل مکمل نہ کرے کیوں کہ اس سے ’’دہشت گرد‘‘ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ تینوں ملکوں کے نائب وزرائے خارجہ نے ایک مشترکہ اعلامیے میں کہا ہے کہ انخلا کو مرتب، ذمے دارانہ اور مشروط ہونا چاہیے۔ اس وقت افغانستان میں امریکا کے 8600 فوجی موجود ہیں اور امریکا آئندہ 14 ماہ میں اپنے تمام فوجیوں کو افغانستان سے نکالنا چاہتا ہے۔ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ افغانستان سے برق رفتار انخلا کے متمنی ہیں۔
(روزنامہ ڈان کراچی۔ 8 جولائی 2020ء)
چین امریکا کا دشمن ہے اور وہ خطے میں کہیں بھی امریکا کی موجودگی نہیں چاہتا مگر چین کو افغانستان میں امریکا کی موجودگی ’’مطلوب‘‘ ہے کیوں کہ امریکا کے جاتے ہی افغانستان طالبان کے ہاتھ میں چلا جائے گا اور سنکیانگ کے مظلوم مسلمان ایک بار پھر مدد کے لیے افغانستان اور طالبان کی طرف دیکھ سکتے ہیں۔ اشرف غنی امریکا کے ایجنٹ ہیں اور انہیں معلوم ہے کہ امریکا کے انخلا کے بعد کا افغانستان طالبان کا افغانستان ہوگا اور اس افغانستان میں اشرف غنی اور ان جیسوں کا کوئی مستقبل نہ ہوگا۔ مگر سوال یہ ہے کہ پاکستان افغانستان سے امریکا کا انخلا کیوں نہیں چاہتا؟ پاکستان کے حکمران تو طالبان کے اتحادی ہیں۔ ان کے سرپرست ہیں۔ مگر اس کے باوجود بھی پاکستان کے حکمران افغانستان سے امریکا کا انخلا نہیں چاہتے۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ انخلا کو ’’مرتب‘‘ ہونا چاہیے۔ وہ مطالبہ کررہے ہیں کہ انخلا کو ’’ذمے دارانہ‘‘ ہونا چاہیے۔ وہ تقاضا کررہے ہیں کہ انخلا کو ’’مشروط‘‘ ہونا چاہیے۔ پاکستان کے حکمران کہہ رہے ہیں کہ ایسا نہ ہوا تو دہشت گرد اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان کسے دہشت گرد کہہ رہا ہے؟ طالبان کو؟ سنکیانگ کے مظلوم چینی مسلمانوں کو؟ بوسنیا ہرزیگووینا کے مسلمانوں کی مدد کو جانے والے عرب مسلمانوں کو؟
پاکستان کے حکمرانوں نے دہشت گردی کے خلاف امریکا کی جنگ کو گود لیا اور ملک میں خانہ جنگی برپا کرکے اس کا ذمے دار طالبان اور اس کے حامیوں کو ٹھیرایا حالاں کہ اس خانہ جنگی اور اس کے نتیجے میں ہونے والے جانی اور مالی نقصان کا ذمے دار پاکستان کا سول اور فوجی حکمران طبقہ ہے۔ یہ طبقہ نہ امریکا کی جنگ کو گود لیتا نہ ملک میں خانہ جنگی برپا ہوتی۔ نہ 70 ہزار سے زیادہ پاکستانی شہید ہوتے۔ نہ ملک کو 120 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوتا۔ اس سلسلے میں پاکستان کے حکمران طبقے کی ذمے داری 2001ء میں بھی ظاہر تھی۔ 2010ء میں بھی ظاہر تھی اور اب 2020ء میں بھی ظاہر ہے۔ پاکستان کا حکمران طبقہ نائن الیون کے بعد بھی امریکا کا ایجنٹ تھا۔ 2010ء میں بھی امریکا کا ایجنٹ تھا اور آج بھی وہ امریکا کے ایجنٹ کا کردار ادا کررہا ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو پاکستان افغانستان سے امریکا کے برق رفتار انخلا کی مخالفت نہ کرتا۔ وہ کہتا امریکا جیسا شیطان جتنی جلدی خطے سے نکل جائے اچھا ہے۔ امریکا جب تک افغانستان میں ہے اس وقت تک پاکستان کی سلامتی کو خطرہ ہے۔ امریکا جب تک افغانستان میں موجود ہے افغانستان میں امریکی ایجنٹ ہی برسراقتدار رہیں گے۔ امریکا جب تک افغانستان میں ہے ہندوستان پوری طاقت کے ساتھ افغانستان میں موجود رہے گا۔ اب چوں کہ پاکستان کے حکمرانوں نے افغانستان سے امریکا کے برق رفتار اور فوری انخلا کی مخالفت کردی ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ پاکستان کے سول اور فوجی حکمران بھی چاہتے ہیں کہ امریکا ہماری سلامتی کے لیے خطرہ بنا رہے۔ پاکستان کے فوجی اور سول حکمران یہ بھی چاہتے ہیں کہ افغانستان میں امریکی ایجنٹوں کی حکومت رہے۔ پاکستان کے فوجی اور سول حکمران یہ بھی چاہتے ہیں کہ بھارت پوری قوت کے ساتھ افغانستان میں موجود رہے اور پاکستان میں دہشت گردی کراتا رہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ پاکستان کے حکمران طبقے کے دو چہرے ہیں۔ وہ ایک چہرے سے کچھ کہتے ہیں اور دوسرے چہرے سے کچھ اور فرماتے ہیں۔ ایک چہرے سے وہ کہتے ہیں طالبان پاکستان کے بچے ہیں۔ دوسرے چہرے سے وہ انہی طالبان کو پکڑ پکڑ کر امریکا کے حوالے کرتے ہیں اور جنرل پرویز کے اعتراف کے مطابق اس عمل سے ڈالر کماتے ہیں۔ ایک چہرے سے پاکستان کے حکمران کہتے ہیں کہ امریکا کو افغانستان سے نکل جانا چاہیے۔ دوسرے چہرے سے پاکستان کے حکمران کہتے ہیں کہ انخلا کو مرتب، ذمے دارانہ اور مشروط ہونا چاہیے۔ انخلا کے مرتب ہونے سے مراد ہے کہ انخلا میں برسوں لگ جانے چاہئیں۔ ذمے دارانہ اور مشروط انخلا سے مراد یہ ہے کہ طالبان کو کبھی افغانستان میں طاقت ور اور خود مختار نہیں ہونا چاہیے۔ انہیں ہمیشہ امریکا اور پاکستان کا محتاج رہنا چاہیے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کا حکمران طبقہ 1959ء سے امریکا کا غلام ہے اور وہ دوسروں کو بھی آزاد نہیں دیکھنا چاہتا۔ درحقیقت پاکستان کے حکمران طبقے کا ایک تصور امریکا کا ہے۔ اس تصور امریکا میں امریکا ایک ملک، ایک ریاست نہیں ’’ایک خدا‘‘ ہے۔ امریکا کے صدر جان ایف کینیڈی نے کہا تھا کہ امریکا معاذ اللہ خدائی صفات کا حامل ہے۔ جان ایف کینیڈی کو اس بات کا اتنا یقین نہیں ہوگا جتنا پاکستان کے حکمران طبقے کو اس بات کا یقین ہے۔ جنرل ایوب پاکستانیوں کے لیے ’’مرد آہن‘‘ تھے مگر امریکا کے لیے وہ ’’مرد موم‘‘ تھے۔ انہوں نے مارشل لا تو 1958ء میں لگایا مگر وہ 1954ء سے امریکیوں کے آگے سجدہ ریز تھے۔ وہ امریکیوں کو یقین دلا رہے تھے کہ ہم سے زیادہ اچھا غلام زمانے میں کہیں موجود نہیں۔ تم ہم سے ایک وفاداری کے طالب ہوگے تو ہم چار وفاداریاں پیش کریں گے۔ تم ایک سجدے کا مطالبہ کرو گے تو ہم ایک درجن سجدے بجا لائیں گے۔ یہ وہی جنرل ایوب تھے جن کے زمانے میں ہمیں امریکا سے گندم کی بھیک ملی تو جن اونٹوں کے ذریعے گندم کو بندرگاہ سے شہر منتقل کیا گیا ان کے گلے میں Thank you America کی تختیاں لٹکی ہوئی تھیں۔ لیکن تجزیہ کیا جائے تو امریکا نے کبھی پاکستان کو کچھ نہ دیا۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں اس نے بھارت کے خلاف ہماری مدد سے صاف انکار کردیا۔ یہاں تک کہ اس نے فوجی ساز و سامان کی ترسیل ہی روک دی۔ 1971ء کے بحران میں بھی امریکا نے ہمارا ساتھ نہ دیا۔ اس نے وعدہ کیا کہ وہ چھٹا بحری بیڑا ہماری مدد کو بھیجے گا لیکن یہ بحری بیڑا کبھی پاکستان نہ پہنچ سکا۔ اس لیے کہ یہ بحری بیڑا کبھی پاکستان کے لیے روانہ ہی نہ ہوا تھا۔
ہندوستان 1974ء میں ایٹمی دھماکے کرکے ایٹمی طاقت بن چکا تھا۔ پاکستان کو بھارت کے ’’نیوکلیئر بلیک میل‘‘ کا سامنا تھا چناں چہ ایٹم بم بنانا پاکستان کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ تھا مگر امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں نے ہر قدم پر پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی راہ میں کانٹے بچھائے۔ مغرب بالخصوص امریکا کے ذرائع ابلاغ نے پاکستان کے ایٹم بم کو ’’اسلامی بم‘‘ کہہ کر پکارا، حالاں کہ انہوں نے کبھی امریکا، برطانیہ اور فرانس کے ایٹم بم کو ’’عیسائی بم‘‘ سوویت یونین اور چین کے ایٹم بم کو کبھی ’’کمیونسٹ بم‘‘ اور بھارت کے ایٹم بم کو کبھی ’’ہندو ایٹم بم‘‘ کہہ کر نہیں پکارا تھا۔ امریکا پاکستان کو کبھی ایٹم بم نہ بنانے دیتا مگر اتفاق سے سوویت یونین افغانستان میں داخل ہوگیا اور امریکا کو پاکستان کی شدید ضرورت پڑ گئی۔ چناں چہ امریکا نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی طرف سے آنکھیں بند کرلیں۔
دنیا کی تاریخ میں شاید کبھی ایسا ہوا ہو کہ کسی ملک سے دوسرے ملک کے ساتھ ایک تجارتی سمجھوتا کیا ہو اور اس پر عمل نہ کیا ہو۔ امریکا نے پاکستان کو ایف 16 طیارے فروخت کرنے کا سمجھوتا کیا اور اُس سے مکر گیا۔ اس نے نہ پاکستان کو ایف 16 دیے نہ پاکستان کی خطیر رقم لوٹائی۔ امریکا نے دس بارہ سال کے بعد رقم لوٹائی تو سویا بینی آئل کی صورت میں۔ مگر پاکستان کے حکمران طبقے نے امریکا سے اس بات پر احتجاج تک نہ کیا۔ نائن الیون کے بعد امریکا نے پاکستان کو دھمکی دی کہ اگر اس نے اس کی جنگ کو گود نہ لیا تو وہ پاکستان کو پتھروں کے زمانے میں واپس بھیج دے گا۔ امریکا کے وزیرخارجہ کولن پاول کے بقول انہوں نے جنرل پرویز کے سامنے سات مطالبات رکھے۔ امریکا کا خیال تھا کہ پاکستان ان میں سے تین چار مطالبات نہیں مانے گا مگر جنرل پرویز اور ان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ نے ساتوں کے ساتوں مطالبات تسلیم کرکے پاکستان کو خانہ جنگی کا شکار کردیا۔ اصولی اعتبار سے دیکھا جائے تو جنرل پرویز اور ان کے فوجی اور سول ساتھیوں پر 70 ہزار پاکستانیوں کے قتل کا مقدمہ چلنا چاہیے تھا مگر جنرل پرویز اور اسٹیبلشمنٹ نے 70 ہزار پاکستانیوں کے قتل کی ساری ذمے داری ’’دہشت گردوں‘‘ پر ڈال دی۔ اس وقت پاکستان کا فوجی اور سول حکمران طبقہ امریکا سے ہاتھ جوڑ کر کہہ رہا ہے افغانستان سے نہ جائو۔ تم چلے گئے تو طالبان طاقت ور ہوجائیں گے۔ لاحول ولاقوۃ۔