صحافیوں کو آن لائن ہراسانی سے تحفظ

953

ٹیکنالوجی کے بڑے ادارے سائبر ہراسمنٹ کے مسئلے کو خود حل کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں جبکہ فرانس کی حکومت نے اس معاملے میں پہلا قدم اٹھاتے ہوئے نئے قوانین متعارف کروا کر صحافیوں اور ان خطرات سے دوچار دیگر گروپوں کو آن لائن بدسلوکی کے خلاف لڑنے میں مدد فراہم کی۔ فرانس کا شمار ان چند ممالک میں بھی ہوتا ہے جنوں نے سائبر ہراسمنٹ سے نمٹنے کے لیے ایسے قوانین متعارف کرائے ہیں جن میں صحافیوں کا تحفظ بھی شامل ہے اور اب دوسرے ممالک بھی اس کی تقلید کررہے ہیں۔ صحافیوں کو آن لائن ہراساں کرنا ایک بڑھتی ہوئی پریشانی ہے، ہراساں کرنے والے اکثر ان لوگوں کو نشانہ بناتے ہیں جو نسل پرستی، جبر و تشدد اور ویب سائٹس کے ذریعے پھیلتی ہوئی فحاشی کے خلاف لکھتے ہیں۔ نیویارک میں قائم کمیٹی برائے صحافیوں کے تحفظ میں صنف اور میڈیا کی آزادی کے لیے ہٹی برچ کی ساتھی کی حیثیت سے آن لائن ہراساں کرنے کی تحقیق کرنے والی سارہ گینی کا کہنا ہے کہ خاص طور پر کھیل کے شعبے میں مرد کھلاڑیوں کے بارے میں لکھنے والی خواتین صحافی خود کو سب سے زیادہ غیرمحفوظ سمجھتی ہیں۔ عام طور پر صحافتی تنظیمیں، آزادی اظہار رائے کے محافظ اور فیس بک کے سی ای او مارک زکر برگ سے اتفاق کرتی ہیںکہ ’’خیالات کی منڈی‘‘ میں تمام نظریات میز پر رکھے جاتے ہیں اور سب سے جیت جاتا ہے۔ ہم سب کو خراب معلومات اور نظریات کے ساتھ لڑنا چاہیے۔ لیکن یہ فرانس کی قانون سازی کے ذریعے حل شدہ آن لائن سلوک، معلومات اور نظریات کے تبادلے سے بہتر ہے۔ مبتدیوں کے لیے دشمنی کی شدت بہت زیادہ اثر پیدا کرتی ہے لہٰذا سننے والے زیادہ تر آن لائن تقاریر پر توجہ نہیں دیتے۔ مزید یہ کہ آن لائن بدسلوکی کرنے والے اکثر آف لائن استعمال ہونے والوں سے مختلف حربے استعمال کرتے ہیں۔ ڈیجیٹل ہراسانی میں ڈوکنگ (کسی کے گھر کا پت یا دیگر معلومات آن لائن شائع کرنا) وائلنس (جہاں بہت سے لوگ ایک شخص پر حملہ کرتے ہیں) پریشان کن تصاویر کا بدلہ، انتقام، فحاشی، نقالی اور سائبر اسٹاکنگ شامل ہوسکتے ہیں۔
آج ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجی کے اس دور میں بہت سے ممالک میں صحافیوں کو ہراسانی کے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ انہیں محض اس کو نظر انداز کرنے یا ان کو ہراساں کرنے والوں کے بارے میں رپورٹ کرنے کو کہا جاتا ہے لیکن اس کے لیے بہت زیادہ وقت اور توانائی کی ضرورت ہوتی ہے، اور اس کا ردّعمل بھی سامنے آتا ہے جو ایک کھلا سچ ہے۔ گوکہ جنوبی افریقا اور کچھ دیگر ممالک کے صحافیوں نے اپنے ساتھ ہونے والی آن لائن بدسلوکی کے بعد ہتک عزت کے مقدمات دائر کیے ہیں پھر بھی اکثر میڈیا کے نمائندوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ جب نظریات پیش کرنے کے مواقع دستیاب نہ ہوں، جب آن لائن سسٹم کا دور ہے ضابطے بنانے کی ضرورت ہے۔ پالیسیاں بنانے والوں کو پریشان کن مسئلہ یہ درپیش ہے کہ آیا موجودہ قانون سازی آن لائن ہراساں کرنے کے لیے مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے کافی ہوگی۔ گزشتہ سال تنظیم برائے یورپ نے اپنی ایک رپورٹ میں سلامتی اور تعاون اور بین الاقوامی پریس انسٹی ٹیوٹ نے یہ نتیجہ اخذ کیا کیا تھا کہ صحافیوں کو آن لائن حملوں کی صورت میں تیز، کم لاگت اور کم سے کم دبائو کے ذریعے حل فراہم کرنے والے ٹارگٹڈ سائبر قوانین کا سہارا لینا چاہیے۔
اس محاذ پر فرانس دوسرے ممالک سے آگے رہا ہے۔ 2014 میں فرانس کے قانون نے پہلی بار آن لائن ہراساں کرنے کی تعریف کی۔ اس وقت اس طرح کے معاملات پر اس طرح کارروائی کی گئی تھی جیسے آف لائن ہراساں کیا گیا تھا اور جنسی و جنسی اذیت پسندوں کے تشدد کے خلاف 2018 کے قانون نے سائبر ہراساں کرنے کے حوالے سے بیش تر نقائص کو اپنی قانونی تعریف کو وسیع کرکے بند کردیا تھا۔ جس کے نتیجے میں فرانسیسی قانون اب تمام شہریوں کو بشمول صحافیوں کو ڈوکنگ، بدنامی، توہین اور آن لائن ہراساں کرنے سے بچاتا ہے۔ اگرچہ فرانس کی آئینی کونسل نے حال ہی میں اس قانون کے خلاف فیصلہ دیا تھا لیکن اس نے یہ حصہ برقرار رکھا جس نے آن لائن ہراساں کرنے سمیت آن لائن جرائم پر مرکوز ایک ماہر استغاثہ تشکیل دیا۔ فرانس کی قانون سازی کے اثرات ملک کی حدود سے تجاوز کرتے ہیں کیونکہ نئے ساتھ دفاع کیا جاتا ہے۔ قوانین صحافیوں اور دیگر افراد کے لیے سائبر ہراسمنٹ کے لیے یورپ میں مقدمہ دائر کرنے کو آسان بنا دیتے ہیں۔ عام طور پر یورپ اس بات کا ایک وسیع تر نظریہ رکھتا ہے کہ امریکا کے مقابلے میں کس طرح کی تقریر کی سزا دی جاسکتی ہے اور انفرادی رازداری کے حقو ق کا زیادہ مضبوطی سے دفاع کیا جاتا ہے۔ اب چونکہ کسی شخص کی ساکھ یا ساکھ پر ہونے والے حملوںکا یورپ میں مقدمہ چلایا جاسکتا ہے لہٰذا وہاں کے صحافیوں کو اس سلسلے میں امریکا اور دنیا کے دیگر حصوں میں اپنے ہم منصبوں سے زیادہ تحفظ حاصل ہے۔ پیرس میں مقیم رپورٹرز ود آوٹ بارڈرز کے لیگل ڈائیریکٹر بال کوین نے حال ہی میں بتایا کہ بدنامی اور ہراساں کرنے کا قانون کافی چالاکی کے ساتھ بنایا گیا ہے کیونکہ یہ آزادانہ تقریر کا تحفظ کرتا ہے اور اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ صحافی ہراساں کرنے والوں کے خلاف لڑائی لڑسکتے ہیں تاہم اب بھی انہیں پولیس اور مجسٹریٹوں کے لیے حساسیت کی تربیت کی ضرورت ہے کیونکہ بہت سے لوگ متاثرین پر آن لائن ہراساں کرنے کے اثرات کو پوری طرح سمجھنا نہیں چاہتے اور وہ شکایت پر جلد اور سنجیدگی سے عملدرآمد کرانے کے لیے تیار نہیں ہیں جتنا انہیں چاہیے۔