دہشت گردی کو اسلام سے جوڑنا عالمی سازش

627

ریاض فردوسی
آکسفورڈ ڈکشنری میں لفظ ٹیرر اِزم کے معنی درج ہیں کہ ’’سیاسی مقاصد کے حصول یا حکومت کو کسی کا م پر مجبور کرنے کے لیے پُر تشدد افعال کے استعمال کو ٹیررازم کہا جاتا ہے‘‘ جب کہ آج کے دور میں لفظ دہشت گردی کو اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ نہ صرف جوڑ دیا گیا ہے بلکہ میڈیا کے ذریعے ایسا ماحول بنا دیا گیا ہے، کہ ایک مسلمان بطور دہشت گرد ہی نظر آنا چاہیے۔ یہ سارا کھیل دراصل عالمی سازش کا حصہ ہے، جس کی خاکہ سازی اور اسے عملی تدابیر میں ڈھالنے کا کام بلاشبہ اسلام دشمن عناصر یہودیت اور اس کے ہم نواؤں ہی کا ہے، جن کی جی حضوری اور حکم آوری میں بدقسمتی سے بعض مسلم ممالک، مذہب اسلام سے بیزار حکمران اور مسلم دشمن تنظیمیں پورے مکر و فریب کے ساتھ دہشت گردی کو اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ جوڑنے کی ناپاک کوشش کررہی ہیں اور یہ سب مل کر اسلام کو ’’دہشت گرد‘‘ مذہب اور مسلمانوں کو ’’دہشت گرد‘‘ قوم ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ جبکہ اسلامی تعلیمات دو ٹوک اور واضح ہیں کہ یہ امن و سلامتی اور مساوات پر مبنی مذہب ہے۔
نیلسن منڈیلا کو امریکی حکومت ایک زمانے تک دہشت گرد کہتی رہی، اگرچہ انہوں نے نسلی امتیاز کے خلاف تحریک میں بھرپور حصہ لیا۔امریکا اور طاغوتی نظام کے اشاروں پر جنوبی افریقا کی عدالتوں نے ان پر قتل وغارت، دہشت گردی، غداری اورکئی جھوٹے الزامات لگا کر قید با مشقت کی سزا سنائی۔ نیلسن منڈیلا اسی تحریک کے دوران لگائے جانے والے الزامات کی پاداش میں تقریباً 27 سال پابند سلاسل رہے، اور دہشت گرد کہلاتے رہے۔ انہیں جزیرہ رابن پر قید رکھا گیا، لیکن یہ وہی نیلسن منڈیلا ہیں، جنہیں تحریک کی کامیابی کے بعد 1993ء کا نوبل انعام برائے امن سے نوازا گیا۔
1785ء میں فرانسیسی انقلاب کے دوران اور1792، 1793 ء کو فرانسیسی انقلاب کے برسوں میں میکس ملین نے 5 لاکھ سے زائد افراد کو گرفتار کیا جن میں 40 ہزار افراد کو قتل کردیا گیا جبکہ 2 لاکھ لوگوں کو بھوک اور پیاس کے ذریعے مارا گیا تھا۔اپریل 1926 ء کوبلغاریہ کے صدر مقام صوفیا کے چرچ کے دھماکے میں 50 افراد ہلاک اور 500زخمی ہوجاتے ہیں، یہ دھماکا بلغاریہ کی کیمونسٹ پارٹی نے کیا تھا جو مسلمان نہیں تھے۔ پہلی عالمی جنگ 1930 ء میں ہوئی، جس میں لاکھوں لوگ مارے گئے۔ دوسری عالمی جنگ 1939۔1945ء میں ہوئی، اور اس میں پہلے سے کئی گنا زیادہ اموات ہوئیں۔ 1934 ء میں یوگو سلاویہ کے بادشاہ کوقتل کردیا گیا اور قاتل یہودی تھا،1961 ء میں پہلا امریکی جہاز اغوا ہوا جس کا ذمے دار ایک روسی تھا۔1945ء میں امریکا نے جاپان پر ایٹمی حملہ کیا اور اس حملے میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد جاپانی ہلاک ہوئے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد 1941ء سے لے کر 1948ء تک یہودیوں نے 260سے زائد دہشت گرد کارروائیاں کیں۔ ہٹلر نے 60 لاکھ سے زائد یہودیوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔ ویتنام کی جنگ میں 5لاکھ سے زائد لوگ مارے گئے۔ 1975ء۔1979ء کمبودیا میں 3 لاکھ سے زیادہ لوگوں کی جانیں گئی۔جوزیف اسٹالن نے 20 لاکھ انسانوں کی جان لی۔جس میں 15 لاکھ سے زیادہ انسانوں کی جان تڑپا کر لی گئی۔ بینیتو موسیلینی نے 4 لاکھ لوگوں کو قتل کرکے ہی حکومت حاصل کی ہے۔ امبارگو کو جاج بش نے عراق بھیجا وہاں اس نے ظالمانہ طریقے سے 2 لاکھ سے زیادہ انسانوں کی جان لی۔ جس میں زیادہ تر معصوم بچے شامل تھے۔ ان سب کے علاوہ درجنوں واقعات سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ دہشت گردی کی ان کارروائیوں اور کروڑوں انسانوں کے بے دردی سے قتل کے واقعات کے کرتا دھرتاؤں میں ایک بھی مسلمان شامل نہیں تو پھر مسلمانوں پر کس بنیاد پر یہ الزام عائد کیا جا سکتا ہے؟
عجیب تماشا ہے کہ فلسطین میں جبراً قبضہ کرکے اسرائیلی طاغوتی نظام بے گناہ مظلوم مسلمانوں کا قتل عام کر رہا ہے۔ مسلم بہنوں کی عزت کو تار تار کیا جارہا ہے اور اس کے باوجود اگر وہ غیور مسلمان صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں تو الٹا دہشت گرد کہلاتے ہیں؟ کئی برس تک روسی حکومت کا افغانستان میں قبضہ رہا اور افغانوں کے جوابی حملوں کو لگاتار روسی اخبارات نے دہشت گردانہ حملہ ہی لکھا۔
بوسنیا ہرزیگوینا میں سربوں نے مسلمانوں پر چڑھائی کر کے 10ہزار بے گناہ مائیں، بہنیں، بچے اور بچیوں کوظلم اور جارحیت کا نشانہ بنایا۔ایک کنٹینر میں بند کر کے ہاتھ پائوں باندھ کر ان مظلوم مسلمانوں کوگولیوں سے چھلنی کردیا گیا۔ عراق میں 5لاکھ افراد شہید کیے گئے۔ لیبیا میں 59ہزار مسلمان جن میں شیرخوار بچے اور بچیاں شامل تھیں شہید کیے گئے۔ افغانستان میں روس کی چڑھائی میں لاکھوں افغان شہید کیے گئے، نائن الیون کا ڈارما رچا کر امریکا اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں 20لاکھ شہری نام نہاد جنگ کا ایندھن بن گئے۔ شام میں 6لاکھ بے گناہ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ خاندان کے خاندان ختم کردیے گئے لیکن انسانی حقوق کی بات کرنے والی تنظیموں کوان مظلوموں کی آہ وبکا کہاں سنائی دیتی ہے۔ ان سب کا جرم تو یہ ہے کہ یہ سب مظلوم مسلمان ہیں۔
میانمر میں مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی ہے۔ ان کی کوئی پہچان نہیں کہ وہ انسان بھی ہیں؟ ان کے پاس کوئی گھر نہیں، کوئی زمین نہیں۔ کشتیوں میں دن رات گزار کر کھلے سمندر میں بھٹکنے پر مجبور ہیں۔ وہاں بھی انہیں پناہ میسر نہیں۔ انہیں بے گھر کرنے اور مارنے والے بدھ مذہب کے پیروکار ہیں۔ بدھ مت سے متعلق دعویٰ کیا جاتا ہے کہ کسی کی جان لینا گناہ عظیم ہے لیکن لاکھوں بے گناہ مسلمانوں کو قتل کرنے کے بعد بھی کوئی انہیں دہشت گرد نہیں گردانتا۔ ہر معاملے میں سارا کا سارا قصور مسلمانوں کے سر تھوپ دیا جاتا ہے۔ مزاحمت کریں تو دہشت گرد، ظلم کا مقابلہ کریں تو دہشت گرد، حق کے خلاف آواز بلند کریں تو دہشت گرد اور کسی کو گھر میں گھسنے سے روکیں بھی تو دہشت گرد ہی کہلاتے ہیں۔ اس پوری سازش اور پروپیگنڈے کو سوشل میڈیا اور پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے دنیا بھر میں پھیلایا جا چکا ہے۔
چند ماہ قبل اسرائیلی نوجوان اپنے ہاتھوں میں ایک بینر لے کر سڑکوں پر نکلے، جس پر لکھا تھا کہ ’’خیبر آپ کا آخری موقع تھا‘‘۔ یہود آج بھی ایسی ہی ذہنیت لے کر اپنے دل و دماغ میں دشمنی نبھا رہے ہیں۔ جس پر لکھا ہوتا ہے۔ مسلمانو! خیبر کی فتح تمہاری آخری جیت تھی‘ اب تم ہم سے کبھی نہیں جیت سکتے؟۔
بھارت میں ہندو دیوتاؤں کے نعرے نہ لگانے پر انتہا پسند تنظیموں نے مسلمانوں پر نہ صرف بھیانک حملے کیے بلکہ سرعام تشدد کرکے انہیں قتل بھی کردیا۔ اس طرح کے کئی واقعات بھارت میں رونما ہو چکے ہیں جن میں محض گائے کا گوشت فروخت کرنے کے شبہے میں یا ڈاڑھی رکھنے پر پورا ہجوم پل پڑتا ہے اور چند لمحوں میں ایک بے گناہ انسان کے ساتھ درندوں سے بھی بدتر سلوک کرکے اسے جان سے مار دیا جاتا ہے۔ ایسے واقعات میں بھارت کی سرکردہ سیاسی جماعتیں اور ان ہی کے زیر اثر انتہا پسند تنظیموں کے کارندے ملوث ہیں جب کہ انتظامی سطح پر پولیس سمیت حکومت میں شامل جماعتوں کی سرپرستی بھی انہیں حاصل رہتی ہے۔ یہ ظالم بالکل نہیں جانتے کہ مسلمان موت سے کبھی نہیں ڈرتا بلکہ اللہ اور رسولﷺ کی عزت اور ناموس ہی کے لیے زندہ ہے۔