کورونا کے دوران ٹیکنالوجی کی چین امریکا جنگ

282

عارف عالم

کورونا وائرس نے ایک طرف دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا اور تو دوسری جانب امریکا اور چین کےدرمیان سرد جنگ میں ہرگزرتے دن کےساتھ اضافہ ہورہاہے۔ کووڈ 19 سے لاکھوں انسان موت کی آغوش میں جا چکے ہیں اور 50 لاکھ سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ عالمی وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے دنیا بھر میں لگائے گئے لاک ڈاؤن کی وجہ سے عالمی معیشت کو اربوں ڈالر کو جھٹکا لگ چکا ہے اور محتاط اندازے کے مطابق دنیا کو ساڑھے 8 ہزار ارب ڈالر سے زائد کا نقصان برداشت کرنا پڑسکتاہے۔ عالمی ادارہ صحت نےتو یہاں تک کہہ دیاہےکہ یہ وائرس شاید کبھی ختم نہ اور انسانوں کو اس وائر س کےساتھ ہی جینا پڑے گا۔ کئی مہینوں کے لاک ڈاؤن کےبعد کچھ ملکوں میں احتیاطی تدابیر کے ساتھ نرمی شروع ہوچکی ہے، تاہم ا ب بھی کروڑوں لوگ گھروں میں محصور ہیں۔ کاروبار نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کو شدید مالی بحران کا سامنا ہے۔ امریکا سمیت کچھ ملکوں میں طویل لاک ڈاؤن سے اکتائے لوگوں نے احتجاج کاسلسلہ بھی شروع کردیاہے۔
اسی دوران امریکا اور چین کے درمیان کشیدگی مسلسل بڑھتی جا رہی ہے اور دونوں جانب سے ایک دوسرے پر پابندیوں اور مخالف بیانات دینے کا سلسلہ تھم نہیں رہا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کورونا وائرس کےپھیلاؤ میں ملوث ہونے کا الزام چین پر عائد کیاہےاور چینی صدر شی جِنگ پنگ سے بات کرنےسے بھی انکا رکردیاہے۔ ساتھ ہی چین کو دھمکی دے ڈالی ہےکہ اگر یہ بات ثابت ہوگئی کہ چین کورونا کے پھیلانے میں ملوث ہے تو اسے نتائج بھگتنا ہوں گے۔ امریکا نےعالمی ادارہ صحت پر بھی چین کی حمایت کا الزام عائد کرتےہوئے فنڈرزروکنے کی دھمکی دی تھی، اور بالآخر ہٹ دھرمی پر قائم رہتے ہوئے ٹرمپ نے ڈبلیو ایچ او سے علاحدگی کا اعلان بھی کردیا ہے۔ اُدھر چین کی جانب کورونا سے متعلق لگائے گئے الزامات کی تردید کی گئی ہے جب کہ عالمی ادارہ صحت نے بھی عالمی طاقتوں کو مشورہ دیاہےکہ یہ وقت جھگڑے کانہیں بلکہ مل کر اس وباسے نمٹنے کا ہے۔
ایسے حالات میں جب پوری دنیا کورونا کے باعث سہم کر گھروں میں بیٹھی ہے، امریکا نے ایک بار سےپھر سے جنوبی ایشیا کی متنازع سمندری حدود میں بحری جہازوں کی سرگرمیاں تیز کردی ہیں۔ سی این این کی رپورٹ کےمطابق پینٹاگون کی جانب سے ایک بیان میں کہاگیاہےکہ چین کوروناکی آڑ میں ملٹری اور معاشی فائدہ اٹھانا چاہتاہے،لیکن امریکا ایسا ہونے نہیں دےگا۔ امریکی محکمہ دفاع نے رواں ماہ دوسری بار بحیرۂ جنوبی چین میں اپنے بحری بیڑے تعینات کر دیے ہیں۔ اس سلسلے میں امریکی بحریہ کی طرف سے جاری بیان میں بتایا گیا ہے کہ 2 بحری بیڑوں یو ایس ایس نمٹز اور یو ایس ایس رونالڈ ریگن نے رواں ماہ 4 سے 6 جولائی کے دوران بحیرہ جنوبی چین میں فوجی مشقیں کی تھیں اور اب انہیں دوبارہ اس خطے میں تعینات کر دیا گیا ہے۔ برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق امریکا کی طرف سے بحری بیڑوں کی بحیرۂ جنوبی چین میں تعیناتی کی وجوہات سیاسی یا دنیا میں رونما ہونے والے واقعات نہیں ہیں، لیکن امریکی بحریہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکا اور چین کے تعلقات کشیدہ ہیں۔ چاہے وہ کورونا وائرس ہو، تجارت ہو یا پھر ہانگ کانگ سے متعلق معاملات، ان تمام مسائل پر دونوں ممالک کے تعلقات تناؤ کا شکار ہیں۔ امریکی بحری بیڑے نمٹز کے ریئر ایڈمرل جم کرک نے کہا ہے کہ یو ایس ایس نمٹز اور یو ایس ایس ریگن بحیرۂ جنوبی چین میں تعینات کیے گئے ہیں، جہاں بین الاقوامی قوانین خطے میں موجود امریکا کے اتحادیوں کو مدد فراہم کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔
بحیرۂ جنوبی چین کا یہ خطہ متنازع ہے اور چین اس کے 90 فیصد حصے پر ملکیت کا دعویٰ کرتا ہے لیکن خطے کے دیگر ممالک برونائی، ملائیشیا، فلپائن، تائیوان اور ویتنام اس دعوے کو نہیں مانتے۔ دوسری جانب وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ چین کے حوالے سے کسی چیز کو خارج از امکان قرار نہیں دیتے۔ امریکی ذرائع ابلاغ میں یہ بات سامنے آ چکی ہے کہ صدر ٹرمپ چین کی حکمراں کمیونسٹ پارٹی کے ارکان اور ان کے اہل خانہ کا امریکا میں داخلہ ممنوع قرار دینے پر غور کر رہے ہیں۔
ائرفورس گلوبل اسٹرائیک کے کمانڈر جنرل ٹموتھی رے کاکہناہےکہ امریکا دنیا کے کسی بھی کونے میں رکسی بھی وقت حتی کے کورونا کےوبائی دورمیں بھی میزائلوں کےذریعےجواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے جب کہ چینی فوج کےترجمان کرنل لی ہیومن کاکہناہےکہ امریکا فوجی نقل و حرکت سے باز رہتےہوئے کوروناسے نمٹنے کی عالمی کوششوں کا ساتھ دے۔
امریکا اور چین کےدرمیان سرد جنگ صرف یہاں تک نہیں رکی ہوئی ہےکہ بلکہ اس سے پہلےامریکا کی جانب سے چینی کمپنی ہواوےپرجاسوسی کےالزام کےبعد عالمی پابندی بھی لگائی جاچکی ہے۔ دنیا میں ٹیلی کام نیٹ ورک کے لیے آلات بنانے والی چین کی سب سے بڑی کمپنی ہواوےکوروکنے کے لیےامریکا مبینہ طورپر دباؤ کےذریعے تائیوان کی کمپنی ٹی ایس ایم سی سے 12 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کےساتھ امریکی ریارست ایریزونا میں فیکٹری لگانے کا اعلان کرانےمیں بھی ا ب کامیاب ہوگیاہے۔
امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیو نے ٹوئٹر پیغام میں کہاہےکہ ٹی ایس ایم سی کے امریکی سرزمین پر فیکٹری لگانے کے اعلان سے امریکا کی قومی سلامتی میں اضافہ ہوگا،وہ بھی ایسے وقت میں ضروری ہے ،جب چین ٹیکنالوجی کے ذریعے برتری اور کنٹرول حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ اُن کا مزید کہناتھاکہ اس سرمایہ کاری سے امریکا کی معاشی خود انحصاری میں اضافہ ہوگا، ساتھ ہی امریکا اور تائیوان کےتعلقات مزید مستحکم ہوں گے۔ اس سےپہلےچینی وزارت خارجہ کے ترجمان جینگ شوانگ اپنے ایک بیان میں کہہ چکےہیں تائیوان کو چین سے علاحدہ کرنے کی کوششوں پراُن کا ملک خاموش نہیں رہے گا اور طاقت کےاستعمال سےبھی نہیں کترائے گا۔ ساتھ ہی انہوں نےعالمی برادری سےبھی امید ظاہر کی وہ علاحدگی پسند قوتوں کی مخالفت کرتےہوئے چین کا ساتھ دے گی۔ ایسی صورتحال میں ٹی ایس ایم ایس کا امریکا میں فیکٹری لگانے کا اعلان امریکا کےلیے کتنا فائدہ مند ہوسکتاہے اور امریکا ا س سے کیسےچینی ٹیکنالوجی کامقابلہ کرسکتاہے، اس بارے میں کچھ کہناقبل از وقت ہوگا۔
فیکٹری کےقیام کےاعلان کےساتھ ہی امریکی محکمہ تجارت نے برآمد ی قواعد میں تبدیلی کرتے ہوئے ہواوے ٹیکنالوجیز کو عالمی سیمی کنڈکٹر انڈسٹری سے سامان کی ترسیل پر پابندی لگادی ہے۔محکمہ کاکہناہےکہ پابندی کا مقصد امریکی سافٹ وئیر اور ٹیکنالوجی کی مدد سےہواوے کو سیمی کنڈکٹرز کی فراہمی سے روکناہے۔ہواوے کےچیئرمین ایرک شوامریکی اقدامات پر چینی حکومت کی جانب سے ممکنہ جوابی کارروائی کا اشارہ دے چکےہیں۔ اُن کاکہناتھاکہ کمپنی کونقصان پہنچانےکی صورت میں چین خاموشی سے تماشا نہیں دیکھے گا۔ سیمی کنڈکٹر انڈسٹری کےصدر جان نیوفرکاکہناہےکہ امریکی پابندیوں سےسیمی کنڈکٹرکی عالمی انڈسٹری میں غیر یقینی صورتحال اور خلل پیدا ہوگا۔
چین پچھلے کچھ برس سے فتھ جینریشن ٹیکنالوجی پر اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کرنےمیں مصروف ہے۔ اس ٹیکنالوجی سے نہ صرف صارفین کو تیز ترین انٹرنیٹ کی سہولیات میسر آسکیں گی بلکہ اس سے مصنوعی ذہانت کو نئی جان ملے گی، جس سے اسمارٹ شہر ، خودمختار نقل و حمل اور جدید صنعت کا فروغ ممکن ہوسکےگا۔تاریخ میں یہ پہلی بار ہےکہ چین ٹیکنالوجی کی دنیا میں امریکا کو شکست دینے کےقریب ہے۔ جس میں کامیابی کی صورت میں امریکا کی سلامتی کا خطرات لاحق ہوسکتےہیں ،جس کا اظہار امریکی عہدے دار کئی مواقع پر کرچکے ہیں۔
ٹیکنالوجی کی اس جنگ میں کون کامیاب ہوتا اورکون کس کو روکنے یا نقصان پہنچا پاتاہے، یہ تو وقت طے کرے گا ،تاہم ماہرین کاکہنا ہےکہ کورونا کی صورتحال اور امریکا چین کےدرمیان ٹیکنالوجی کی جنگ سے لوگوں اور کاروبارکو نقصان پہنچنے کا خدشہ ضرور ہےاور دنیا دوحصوں میں بٹ سکتی ہے۔