ایک نئی سرد جنگ

949

عالمی منظرنامہ بتدریج امریکا چین سرد جنگ کی طرف بڑھتا نظرآ رہا ہے۔ نئے نئے اتحاد تشکیل پا رہے ہیں۔ امکان ہے کہ جنوبی ایشیا اس نئی پیش رفت کا مرکزی تھیٹر ہوگا جہاں طاقت کا توازن تبدیل ہورہا ہے۔ بیجنگ اور واشنگٹن اثر رسوخ اور معاشی دائرے کی وسعت کے میدان میں مقابلہ زن ہیں۔ چین ایران نئی شراکت داری چین کے اس عالمی وژن کی ایک شکل ہے جس کے تحت چین اپنی قیادت میں مشترکہ مفادات کی حامل ایک عالمی برادری کے قیام کی سمت بڑھ رہا ہے۔ چین ایران کی شراکت نے دونوں سپر پاورز کے درمیان رسہ کشی کو نمایاں کیا ہے۔ یہ شراکت نئی سردجنگ کی محرک ہوسکتی ہے۔ تجارتی جنگ اور کوویڈ19 کی وبا کے بعد شدت اختیار کر لینے والا امریکا چین تنازع عالمی بساط پر مہروں کو نئی ترتیب دے رہا ہے۔ ایران اور پاکستان کسی زمانے میں امریکن کیمپ میں تھے جب کہ بھارت امریکن مخالف کیمپ میں۔ نئے منظر نامے میں ایران اور پاکستان امریکن مخالف کیمپ میں چین کے ساتھ کھڑے ہیں جب کہ بھارت خطے میں امریکا کے سب سے بڑے اتحادی کا کردار ادا کررہا ہے۔
چین ایران شراکت داری، چین کا بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ اور سی پیک جوکہ عمل درآمد کے دوسرے مرحلے میں ہے، (امریکا ان تمام منصوبوں کا دشمن ہے)، چین کو جنوبی ایشیا کے ایک اہم اسٹک ہولڈر کی حیثیت دے رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ چین پر دبائو میں اضافے کی پالیسی کو نومبر کے الیکشن کے لیے ایک کارڈ کی صورت استعمال کررہے ہیں۔ واشنگٹن کا آئے روز چین پر نئی پابندیوں کا اعلان، ہانگ کانگ کے حوالے سے چین پر دبائو میں اضافہ، امریکن اسلحہ کی تائیوان کو فروخت، جنوبی بحیرہ چین میں چین کی فوجی مشقوں کو متاثر کرنے کے لیے امریکی بحریہ کے اسٹرائیک گروپ کی خطے میں روانگی، اسی کارڈ کی عملی شکلیں ہیں۔ اس سے پہلے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو پہلی مرتبہ اس علاقے میں چین کی عملداری کو تسلیم نہ کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔
ایران امریکا تعلقات میں بھی ایسی ہی کھینچاتانی اور دشمنی کا پہلو غالب ہے۔ امریکا ہر اس ملک پر پابندی کے درپے ہے جو ایران سے تیل خریدنا چاہتا ہے یا ایران سے تعلقات کا خواہاں ہے۔ امریکا کے دبائو پر بھارت کی چاہ بہار منصوبہ سے علٰیحدگی اس کی ایک مثال ہے۔ یہ منصوبہ بھارت کے لیے بہت اہمیت کا حامل تھا۔ بھارت کو ایران کے ساتھ اس منصوبے پر 400 ارب روپے لگانے تھے۔ اس منصوبے سے بھارت کے پیش نظر تین مقاصد تھے۔ اول: ایران اور پاکستان کے درمیان فاصلے بڑھانا۔ ایران نے مسئلہ کشمیر پر ہمیشہ پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔ دوم: ایران سے تعلقات میں اضافہ کرکے خطے میں مفادات حاصل کرنا، جو امریکی پابندیوں کی زد میں عالمی تنہائی کا شکار تھا۔ سوم: ایران کے ذریعے افغانستان میں اپنے اثر رسوخ میں اضافہ جو طالبان کی فتح کے بعد آہستہ آہستہ کم ہوتے جارہے ہیں۔ بھارت کی افغانستان میں دو سے تین ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہے۔ مستقبل میں طالبان کی حکومت کے امکانات، بھارت کی تشویش میں اضافے کا سبب ہیں کیونکہ طالبان بالآخر پاکستان کے اتحادی ثابت ہوں گے۔ بھارت کو افغانستان میں اپنی سرمایہ کاری ڈوبتی اور بھارت افغانستان تعلقات تنزلی کا شکار ہوتے نظر آرہے ہیں۔ افغانستان سینٹرل ایشیا تک رسائی کا اہم ذریعہ ہے۔ ایران کے ساتھ قریبی تعلقات بھارت کے ان تمام مسائل کا حل تھے۔ افغانستان کا بھی ایران بھارت قریبی تعلقات میں فائدہ تھا۔ پاکستان پر اس کا انحصار کم ہوجاتا اور چاہ بہار اس کے لیے بھی ایک مفید شاہراہ ثابت ہوتی۔ ایران پاکستان اور بھارت کے درمیان گیس پائپ لائن IPI کا پروجیکٹ بھی تھا جس کے ذریعے ایران بھارت اور پاکستان کو تیل اور گیس فروخت کرسکتا تھا۔ یہ ایک بہت بڑا پروجیکٹ تھا۔ ایران کے اس منصوبے سے بہت مفادات وابستہ تھے۔ خصوصاً تیل، امریکی پابندیوں کی وجہ سے جس کی فروخت کم سے کم ہوتی جارہی تھی۔ یہ نریندر مودی کی بہترین اسٹرٹیجک حکمت عملی تھی، جس سے ایران اور بھارت دونوں کا فائدہ تھا۔ بھارت کو افغانستان کے راستے سینٹرل ایشیا تک رسائی بھی ملتی اور ایران سے سستا تیل بھی۔ پاکستان کو بھی خطے میں تنہا کیا جاسکتا تھا۔ لیکن امریکی پابندیوں کے خطرے اور دھمکیوں کے پیش نظر بھارت کو اس منصوبے سے دستبردار ہونا پڑا۔ امریکا نے بھارت کو ایک ڈیڈ لائن دے رکھی تھی۔ امریکا کی وجہ سے بھارت پیچھے ہٹتا گیا۔ ایران کے پاس کوئی راستہ نہیں رہا کہ وہ بھارت کو چاہ بہار بندرگاہ اور پائپ لائن منصوبے سے نکال باہر کرے۔ بھارت کی اس منصوبے سے یوں آسانی سے دستبرداری سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بھارت امریکا تعلقات پختگی اور مضبوطی کی کس منزل میں ہیں کہ بھارت نے خطے میں اپنے مفادات سے دستبردار ہونا پسند کیا لیکن امریکی دبائو کی مزاحمت نہیں کی حالانکہ اس منصوبے سے علٰیحدہ ہونے کی وجہ سے اندرون ملک نریندر مودی کو سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں میں بھارت کے امریکا کی طرف جھکائو میں بہت تیزی کے ساتھ اضافہ ہوا ہے حالانکہ بھارت کی سیاسی اور سفارتی اسٹیبلشمنٹ نے واشنگٹن کے رویے کے بارے میں خاصے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
ایک ایک آپشن ختم ہوتے دیکھ کر ایران نے چین سے روابط بڑھانے شروع کیے۔ چین نے ایران میں 400 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے منصوبوں سے عالمی میڈیا کو حیرت زدہ کردیا ہے۔
اگرچہ سرکاری سطح پر ابھی تک اس کا اعلان نہیں کیا گیا لیکن مسودے میں کہا گیا ہے کہ چین ایران کے پٹرولیم اور انفرا اسٹرکچر شعبوں، مشترکہ فوجی مشقوں، تربیت اور ہتھیاروں کے نظام کی تحقیق وترقی میں یہ رقم خرچ کرے گا۔ اس کے بدلے ایران 25سال تک چین کو رعایتی نرخوں میں تیل فراہم کرے گا۔ اندازہ کیجیے چین ایران میں کتنی بڑی سرمایہ کاری کررہا ہے۔ 40ارب ڈالر سالانہ۔ عالمی تجارت کے عظیم منصوبوں میں سینٹرل ایشیا ایران افغانستان پاکستان سب چین کے ساتھ ہوں گے۔ اب چین ایران سے تیل خریدے گا اور گوادر کے راستے چین تک پہنچائے گا۔ یوں تیل کی پیداوار سے لے کر گزرگاہوں تک سب چین کی دسترس میں ہوں گے۔ چین کو سائوتھ چائنا سی کی بلیک میلنگ سے بھی نجات مل جائے گی۔ جو چین تک تیل کی ترسیل کا ایک ہی راستہ تھا۔ وہاں جاپان، بھارت، امریکا، جنوبی کوریا سب ہی موجود ہیں جو کسی بھی وقت اتحاد کرکے چین کو تیل کی ترسیل اور درآمد برآمد میں رکاوٹ ڈال سکتے ہیں۔ اب چین کے پاس ایک محفوظ متبادل بھی موجود ہوگا۔
ایران چین پارٹنر شپ حتمی طور پر جس شکل میں بھی سامنے آئے ایک بات طے ہے کہ امریکا کی طرف سے ایران پرعائد کی گئی پابندیوں کو اب طویل مدت تک چین کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ امریکا ایران پر پابندیوں کو محض اپنی خواہش قرار نہیں دیتا۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے گزشتہ دنوں کہا تھا ’’ایران پر پابندیوں کو صرف امریکا کی طرف منسوب مت کریں۔ خطے کے دوسرے ممالک کی آواز بھی سنیں۔ اسرائیل سے لے کر خلیج تک مشرق وسطیٰ کے ممالک ایران کی طرف سے خدشات کی وجہ سے پابندیاں چاہتے ہیں‘‘۔ ایران چین معاہدہ اس مطلوبہ مقصد کو ناکام بنا سکتا ہے۔ امریکا اپنے یورپی اتحادیوں کو ایران سے تجارت سے روک سکتا ہے لیکن وہ ایران کو مکمل طور پر تنہا کرنے میں ناکام نظر آتا ہے۔ چین ایران معاہدے کے بعد ایرانی معیشت کو ایک نئی زندگی مل جائے گی۔ ایک ایسے وقت میں جب امریکا کساد بازاری اور کورونا وائرس سے دوچار بین الاقوامی سطح پر الگ تھلگ ہوتا جارہا ہے بیجنگ نے امریکی کمزوری سے فائدہ اٹھا یا ہے۔ چینی قیادت کو سردجنگ کی صورت امریکی ناراضی کی قیمت چکانا پڑسکتی ہے۔ ابھی ایرانی پارلیمنٹ میں اس معاہدے پر زور دار بحث ہونا باقی ہے، لیکن اس کے باوجود یہ معاہدہ چین کی پر اعتمادی کا اظہار ہے۔