غیر جانبدار شفاف احتساب کیا ممکن ہے؟

488

موجودہ حکومت کو دوسال کا عرصہ ہوگیا ہے سب یہ جان چکے ہیں کہ اس حکومت کواقتدار چلانے کا کوئی خاص تجربہ نہیں، اس حکومت کے پاس ناتجربے کار ٹیم ہے جو ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے وعدوں پر یوٹرن لے چکی ہے۔ عوام ان کی کارکردگی سے مایوس ہوچکے ہیں۔ حکومت مخالف جماعتیں اس نااہل حکومت کو رخصت کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں جس میں یہ کامیاب ہوسکیں گی یا نہیں یہ وقت بتائے گا۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت تو ٹھیری نااہل نالائق ناتجربے کار۔ توکیا ایک بار پھر ہم ملک کا اقتدار اُن نااہل کرپٹ سیاستدانوں کے سپرد کر دیں جنہوں نے 35 برس تک قومی خزانے کو لوٹ کر بیرون ملک اثاثے بنائے، جنہوں نے غریب کے بنیادی حقوق، بنیادی مسائل کو سڑکوں پر روند ڈالا، جنہوں نے انصاف کے نام پر غریب کی لاشوں پر سیاست کی، سرکاری اداروں کو اپنی لونڈی سمجھ کر ان کا غلط استعمال کیا، یہ لوگ ہر محاذ پر ملک و قوم کی تذلیل کا سبب بنے، ہم ایک بار پھر ملک و قوم کی خوشحالی کی اُمید اُن افراد سے کر رہے ہیں جن کو اس ملک کی عدالتوں اور تحقیقاتی اداروں نے کرپٹ اور نااہل ثابت کیا ہے، جن کی نسلیں اس ملک کے پیسوں پر بیرون ملک عیاشی کر رہی ہیں۔ اس ملک کے تین بار وزیر اعظم منتخب ہونے والے میاں صاحب کیا اپنے ملک کی عدالتوں کی توہین کے مرتکب نہیں ہورہے چند ہفتے علاج کے مانگ کر کئی ماہ سے بیرون ملک مقیم ہیں اور اب تو ذرائع یہ بھی بتاتے ہیں کہ میاں صاحب لندن میں سیاسی پناہ کے خواہش مند ہیں۔ دوسری جانب پوری مسلم لیگ ن کی سینئر قیادت اپنے لیڈر کو عدالتوں سے بے گناہ ثابت کرنے کے بجائے پریس کانفرنس میں بیٹھ کر بے گناہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش میں مصروف ہے۔ مریم بی بی نے جو جج اسکینڈل ویڈیو کو قوم کے سامنے لا کر اب پردہ نشین ہوگئی ہیں تو اب وہ کیا ثابت کرنا چاہتی ہیں کہ وہ غلط تھیں یا ویڈیو جعلی تھی اس وقت عوام کے ذہنوں میں یہ سوال گردش کر رہا ہے کہ اگر ویڈیو کے مطابق میاں صاحب بے گناہ تھے تو عدالتوں نے ان کو سزا کیوں سنائی ساتھ ہی اس ملک کی عدالتوں کی بھی یہ اولین ذمے داری ہے کہ وہ ان الزامات کا جواب دیں۔
پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری حکومت کو دھمکی دے رہے ہیں کہ اگر این ایف سی یا اٹھاویں ترمیم کو چھیڑا گیا تھا وہ وزیر اعظم کو گھسیٹ باہر کریں گے۔ یہ عزیر بلوچ کی جے آئی ٹی ہے جس نے بلاول کو مجبور کر دیا ہے۔ زرداری صاحب کا نام اگر ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں نہ ہوتا تو یقینا یہ موصوف بھی بیرون ملک علاج کے لیے روانہ ہوجاتے۔ آج عزیر بلوچ کے الزامات سے پیپلزپارٹی خوفزدہ دکھائی دے رہی ہے اگر عزیر بلوچ کا ہر الزام جھوٹ پر مبنی ہے تو پھر پیپلزپارٹی پریس کانفرنس کر کے اپنا دفاع نہ کرے بلکہ اس ملک کے تحقیقاتی اداروں اور عدالتوں پر بھروسا کر کے عزیر بلوچ کے الزامات کا سامنا کرتے ہوئے اپنے آپ کو درست ثابت کرے۔ زرداری صاحب کے ہر دلعزیز سابق وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا جنہوں نے امن کمیٹی بنانے اور اس کو ایم کیوایم کے خلاف استعمال کرنے کا اعتراف کیا تھا اور کراچی شہر میں ایک طویل عرصے تک خون کی ہولی کھیلی گئی۔ عزیر بلوچ نے اس بات کا بھی اعتراف کیا تھا کہ لیاری کے عوام کو ایم کیو ایم کے خاتمے کے لیے کلاشنکوف کے لا ئسنس دیے گئے ساتھ ہی عزیر بلوچ کے ہر عشائیہ میں پیپلزپارٹی کی سینئر قیادت کی بھر پور شرکت عزیر بلوچ کے الزامات کو تقویت پہنچاتی ہے۔
ہم نے ماضی میں شہر کراچی میں ہر روز لاشیں گرتی دیکھی ہیں یہ انسانی زندگیاں بے روزگاری، علاج، انصاف، تعلیم کے نام پر ختم نہیں کی جاتی تھیں بلکہ سیاسی بنیادوں پر اس شہر کی نوجوان نسل کا خون بہایا جاتا تھا جس کو اس وقت بھی سیاسی رنگ دیا جارہا ہے بلدیہ فیکٹری کے مجرم ہوں یا لیاری گینگ وار کے مجرم ان دونوں کا ایک ہی مقصد تھا کہ اس شہر کے امن کو نقصان پہنچایا جائے۔
احتساب کے نام پر قائم ہونے والی موجودہ حکومت احتساب تو چاہتی ہے مگر سلیکٹیڈ احتساب۔ اس وقت حکومت کے اتحادی چودھری برادران ایم کیو ایم جی ڈی اے سمیت تحریک انصاف کے کئی سینئر رہنماء جن میں جہانگیر ترین، اعظم سواتی، علیم خان، زلفی بخاری سمیت کئی اور رہنمائوں پر کرپشن کے سنگین الزامات عائد ہیں مگر میری جماعت سے احتساب شروع کرنے کا نعرہ لگانے والے وزیر اعظم عمران خان خاموش ہیں شوگر اسکینڈل کے مرکزی ملزم لندن فرار ہوچکے ہیں اپنے اتحادیوں کی کرپشن کو اپنے اقتدار کی بھینٹ چڑا دیا گیا اپنی جماعت کے کرپٹ لوگوں کو اس لیے نہیں چھیڑا جارہا کہ مزید نقصان کا باعث ہوسکتا ہے۔
اگر حکومت کا یہ طرز احتساب ہے تو یقینا عمران خان کی سیاست سخت مشکل میں پڑ سکتی ہے میاں صاحب زرداری صاحب پر اگر صرف سیاسی انتقام کے تحت کیسز بنائے جارہے ہیں تو خان صاحب اپنا سیاسی قد چھوٹا کر رہے ہیں اگر خان صاحب مزید تین سال کے اقتدار کو کرپشن کی تحقیقات میں گزارنا چاہتے ہیں تو ایک بڑے سیاسی نقصان کی جانب گامزن ہورہے ہیں۔ احتساب کے نام پر اقتدار میں آنے والوں کو ہر وقت یہ سوچنا ہوگا کہ فوری طور پر غیر جانبدار شفاف سیاسی انتقام سے ہٹ کر احتساب کیا جائے اور چاہیے ملزم کتنا ہی طاقتور بااثر ہو ایک بار اس قوم کے سامنے اس کو حقیقی سزا ہونی چاہیے ایسی سزا نہ دی جائے کہ عدالتوں سے سزا کے باوجود مجرم بیرون ملک باآسانی روانہ ہوسکے خان صاحب کا کڑا امتحان ایک کروڑ نوکریاں پچاس لاکھ گھر اُس وقت معاف کیے جائیں گے جب قومی خزانے کو لوٹنے والے طاقتور افراد کو سزا دی جائے گی۔ اگر شفاف احتساب کی بنیاد پر سزائیں نہ دی گئیں تو خان صاحب کی سیاست کو ایک بہت بڑے نقصان کا سامنا ہوسکتا ہے۔