کے الیکٹرک نے بہت ظلم روا رکھا ہے

687

ایک مشاعرے میں فیض احمد فیض اور احمد ندیم قاسمی دونوں شریک تھے۔ فیض صاحب نے قاسمی صاحب سے لاہور کا حال پوچھا تو قاسمی صاحب نے کہا ’’لاہور میں درجہ بدرجہ خیریت ہے مگر شہر میں یہ افواہ گرم ہے کہ شاہی محلہ کی ایک گلشن نامی طوائف نے اپنے گھر کے دروازے پر آپ کی معروف غزل ’’گلوں میں رنگ بھرے‘‘ کے اس مصرعے کا بورڈ لگا رکھا ہے۔ ’’چلے بھی آئو کہ گلشن کا کاروبار چلے‘‘ اب اس کا کاروبار چمک اُٹھا ہے‘‘۔ فیض صاحب یہ بات سن کر بے اختیار ہنس پڑے۔ اس مشاعرے میں احمد ندیم قاسمی نے جو غزل سنائی اس کا مطلع اور مقطع اس طرح سے تھے:
عمر بھر اس نے اسی طرح لبھایا ہے مجھے
وہ جو اس دشت کے اس پار سے لایا ہے مجھے
اے خدا اب تیرے فردوس پہ میرا حق ہے
تو نے اس دور کے دوزخ میں جلایا ہے مجھے
قاسمی صاحب غزل سنا کر فیض صاحب کے پاس آکر بیٹھے تو فیض صاحب نے کہا کہ قاسمی صاحب آپ تو زبان کے سلسلے میں کافی محتاط ہیں مگر کیا بات ہے کہ آپ تذکیرو تانیث کی غلطیاں کرنے لگے ہیں۔ قاسمی صاحب نے پوچھا ’’کون سی غلطی‘‘ فیض صاحب بولے آپ نے غزل کے آخری شعر میں کہا ہے۔ ’’اے خدا اب تیرے فردوس پہ میرا حق ہے‘‘ آپ نے فردوس کو مذکر قرار دیا ہے جبکہ آپ پنجابی فلموں کی جس مشہور ہیروئن فردوس پر اپنا حق جتا رہے ہیں وہ خاتون ہے اور مونث ہے۔ دونوں شاعر اس بذلہ سنجی پر دیر تک ہنستے رہے۔
مذکر اور مونث ہر ایک کے لیے کبھی کراچی فردوس بریں ہوا کرتا تھا جس پر سب کا حق تھا۔ پرندوں کے جھنڈ، گھومتے پھرتے، آوارہ جانور، ٹم ٹم اور بگھیوں میں بندھے گھوڑے ’’پیائو‘‘ تالاب سے پانی پیتے ہوئے۔ پیائو پر گھنے درختوں کا سایہ۔ قیام پاکستان کے بعد بھی عرصے تک یہی مناظر رہے جب کراچی میں درختوں کی بہتات تھی۔ ہر طرف سبزہ ہی سبزہ، ہریالی ہی ہریالی۔ ان دنوں کراچی کا موسم بڑا معتدل ہوا کرتا تھا۔ گرمی کے موسم میں بسا اوقات کراچی مری کا منظر پیش کرتا تھا۔ لوگ گرمی سے بچنے کے لیے کراچی کا رخ کرتے تھے لیکن پھر بڑھتی ہوئی آبادی کی رہائشی ضروریات نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔ سرسبز درخت کٹنے لگے اس بے دردی کے ساتھ کہ اب کراچی میں دور دور کہیں اکا دکا لاغر سا درخت نظر آجاتا ہے۔ ہر طرف تار کول کی سیاہ سڑکیں، بے ہنگم ٹریفک کا دھواں، گداگر، ہیٹ اسٹروک اور اس میں گرتے پگھلتے لوگ اور گھروں کے اندر کے الیکٹرک کے عذاب۔
نام پنکھے کے سسکنے کا ہوا رکھا ہے
کے الیکٹرک نے بہت ظلم روا رکھا ہے
اب کراچی میں سمندر کی طرف سے ٹھنڈی پُروا نہیں چلتی بلند وبالا عمارتیں اس کی راہ میں حائل ہیں۔ کے الیکٹرک کی بجلی پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ جس کی 2005 میں نجکاری کی گئی تھی اس دعوے کے ساتھ کہ حکومت خسارے سے نجات پائے گی، ادارے کو اچھی انتظامیہ ملے گی اور عوام کو بہتر سہولت۔ آج اس ادارے کی نجکاری کو پندرہ برس گزر چکے ہیں۔ بے شک ادارے کو خسارے سے نجات مل گئی۔ اب کے الیکٹرک ایک نفع بخش ادارہ ہے لیکن چند سیٹھوں کے لیے۔ کے الیکٹرک کا پچھلے آٹھ برسوں کا خالص منافع تقریباً 126 ارب روپے ہے جب کہ اس عرصے میں عوام کے حصے میں بجلی کا تعطل، لوڈ شیڈنگ اور زائد بل آئے۔ اک عذاب ہے جس میں اہل کراچی جی رہے ہیں۔
لوگ جس حال میں مرنے کی دعا کرتے ہیں
میں نے اس حال میں جینے کی قسم کھائی ہے
اس کثیر منافع کے باوجود کے الیکٹرک کے مالکان زیادہ سے زیادہ نفع کے حصول کے لیے لوڈ شیڈنگ کا ماحول بناتے ہیں۔ تفصیل اس چالبازی کی یہ ہے کہ کے الیکٹرک فرنس آئل اور گیس سے بجلی بناتی ہے۔ اس طریقے سے جو بجلی حاصل ہوتی ہے وہ مہنگی ہوتی ہے۔ جس سے منافع میں کمی آتی ہے۔ منافع کے اس نقصان سے بچنے کے لیے کے الیکٹرک کم بجلی پیدا کرتی ہے۔ نتیجہ شہریوں کو سپلائی بھی ضرورت سے کم کرتی ہے۔ جس سے شہر میں لوڈشیڈنگ کا عذاب جنم لیتا ہے۔ مظاہرے ہونے لگتے ہیں۔ حکومت دبائو میں آتی ہے اور لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے لیے کے الیکٹرک کو نیشنل گرڈ سے سستی بجلی کے ساتھ ساتھ اضافی گیس بھی فراہم کرتی ہے۔ اس سستی بجلی کو کے الیکٹرک اپنے معمول کے داموں پر عوام کو فراہم کرتی ہے اور معمول سے زیادہ منافع حاصل کرتی ہے۔ اس ہنگامی صورتحال کا فائدہ اٹھاکر کے الیکٹرک حکومت سے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کروانے میں بھی کامیاب ہوجاتی ہے۔ اسی پالیسی کا نتیجہ ہے کہ چار جولائی کو کے الیکٹرک کی بجلی کی قیمتوں میں بھی وفاقی حکومت نے 22.5فی صد اضافہ کردیا ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام نے حکومتوں کے لیے ریاستی امور، اداروں اور محکموں پر گرفت رکھنا ناممکن بنادیا ہے۔ معاملات ریاستوں اور حکومتوں کے ہاتھوں سے نکل چکے ہیں۔ یہ کوئی نا گہانی صورت حال نہیں ہے اس نظام کی پیدا کردہ ہے۔ بجلی، تیل اور گیس عصر حاضر میں کسی بھی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں جس کی عدم موجودگی یا قلت کی صورت میں ریاست اور عوام دونوں شدید نقصان اٹھاتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام میں یہ تینوں اشیا ریاست کی تحویل سے لے کر بے حد وحساب لالچ کے مارے سفاک سرمایہ داروں کے سپرد کردی گئی ہیں۔ یہ عوام کو بھڑکتے ہوئے الائو میں پھینکنے کے مترادف عمل ہے لیکن جمہوریت کے ذریعے اسے ممکن بنادیا گیا ہے۔ عوام کے منتخب نمائندے اپنے ارذل مفاد کے لیے اداروں اور محکموں کی نجکاری کے عمل کی منظوری دیتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کی علامت آئی ایم ایف کے دبائو میں آکر بڑے بڑے اداروں کو نجی شعبے کے حوالے کردیا جاتا ہے جس کے بعد ریاست کے ہاتھ میں کچھ نہیں رہتا۔
پچھلے دنوں حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کرکے عوام کو ریلیف دے کر اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو بچانے کی ایک کوشش کی۔ لیکن نجی آئل کمپنیوں نے اپنے منافع میں کمی کرنے سے انکار کرتے ہوئے کم قیمت پر تیل کی مصنوعات بیچنے سے انکار کردیا۔ پاکستان بھر میں لوگ تیل کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے تھے لیکن ریاست ان منافع خور کمپنیوں کے آگے بے بس تھی۔ یر غمال شدہ ریاست اور حکومت نے جیسے ہی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافہ کیا تیل کی سپلائی بحال کردی گئی اور تیل کی تمام مصنوعات ملک بھر میں دستیاب ہو گئیں۔ کراچی اور پاکستان کے عوام کو بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور زائد بلنگ کے عذاب سے تب ہی نجات ملے گی جب اسلام سے رہنمائی حاصل کی جائے۔ اسلام حکومتوں کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ بجلی کے شعبے کی نجکاری کریں۔ اسلام میں بجلی کی پیداوار اور ترسیل کے نظام کی نجکاری نہیں کی جاسکتی۔ ریاست اور حکومت بجلی کے پورے نظام کو خود چلانے کی ذمے دار ہے۔ عالی مرتبت سیدنا محمدؐ کا فرمان ہے ’’مسلمان تین چیزوں میں شراکت دار ہیں: پانی، چراگاہیں اور آگ (احمد، ابن ماجہ)‘‘۔ آگ سے توانائی مراد ہے۔ یوں بجلی عوامی ملکیت کے تحت آتی ہے جس کی نجکاری نہیں کی کی جاسکتی۔ پاکستان میں جب تک بجلی کی نجکاری نہیں کی گئی تھی بجلی مناسب قیمت میں وافر مقدار میں دستیاب تھی اور ریاست بھی دبائو سے آزاد تھی۔