قلم میں اُڑان بھرنے والا صحافی ’’قاضی عمران‘‘

594

ہم سب کی زندگی میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہیں دل میں بسانے کی ضرورت نہیں ہوتی وہ خود ہی دل میں بس جاتے ہیں ان سے خون کا رشتہ نہ بھی ہو پھر بھی رگوں میں خون کی طرح دوڑتے ہیں ان کی خوشی غم سب سانجھے ہو جاتے ہیں۔ میری زندگی میں قاضی عمران احمد بھی ان میں سے ایک تھے، بیس برس کی طویل رفاقت میں کئی اخبارات سے وابستہ رہے۔ ایک زمانے میں روزنامہ جسارت میں لوکل باڈیز کی بیٹ ان کے پاس آئی تو میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ میں نے کبھی لوکل باڈیز کی بیٹ نہیں کی ذرا سمجھائیں تاکہ بہتر طریقے سے پیشہ ورانہ ذمے داریاں سر انجام دے سکوں۔ آج تک یاد ہے کہ جب لوکل گورنمنٹ کے بارے میں انہیں بتانے بیٹھا تو مہینوں کے سمجھانے کی باتیں تین دن میں انہوں نے سمجھ لیں اور اس وقت کی لوکل گورنمنٹ کی خبریں اپنی نوعیت آپ رہیں، ان کے سیکھنے کے عمل میں کہیں یہ نہیں پایا کہ وہ منفی رحجانات کی ٹوہ میں لگے ہوں، ورنہ معذرت کے ساتھ لوکل گورنمنٹ کی بیٹ کرنے والے اکثر صحافی کچھ اور کی تلاش میں دکھائی دیتے ہیں، قاضی عمران کی صحافت تحقیق وتصدیق کے گرد گھومتی تھی بیٹ لوکل گورنمنٹ ہو یا ہیلتھ کہیں ادارے یا افسر کی غفلت کا ذکر ہوتا تو وہ متعلقہ ادارے یا افسر کے موقف کو لازمی خبر کا حصہ بناتے جو صحافت کا اصول بھی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کی ڈھیروں والی خبروں پر انہیں نہ توکسی قسم کا قانونی نوٹس موصول ہوا اور نہ ہی انہیں کسی خبر کی تردید کرنی پڑی۔
لوکل گورنمنٹ ان کے مزاج کے منافی تھی شاید یہی وجہ تھی کہ وہ زیادہ دنوں تک اس بیٹ سے منسلک نہیں رہے ہیلتھ کی بیٹ میں بھی طرہ امتیاز کے طور پر خبریں دیتے رہے جو اداروں کی بہتری پر مبنی ہوتی تھیں لیکن تیکھی ہونے کی وجہ سے صحت کے اداروں پر بم کی طرح گرتی تھیں ہیلتھ رپورٹنگ میں طفیل احمد، عابد خان جیسے ماہر رپورٹرز کے ساتھ ان کا نام بھی آنا شروع ہو گیا تھا نئے ہیلتھ رپورٹرز ان کی تحریروں سے کافی کچھ سیکھ سکتے ہیں، جبکہ بلدیاتی رپورٹنگ میں موجودہ رپورٹرز میں طاہر عزیز، حنیف اکبر، نعیم خانزادہ، محمد انور خان، منصور درانی اور ماضی میں شہزاد چغتائی، عابد حسین، فیصل حسین کا ثانی ملنا مشکل ہے۔
لوکل گورنمنٹ کے نئے رپورٹرز ان کے قلم کی اڑان سمجھیں تو شہری وبلدیاتی اداروں کی رپورٹنگ ان کے لیے آسان سے آسان تر ہو جائے گی مذکورہ قابل احترام شخصیات کی خبروں ورپورٹس پڑھ پڑھ کر بہت کچھ سیکھا ہے اور پڑھ پڑھ کر سیکھنے کا ایسا شوق ہمیشہ قاضی عمران میں پایا مختلف رپورٹرز کی خبریں اور رپورٹس پڑھ پڑھ کر سیکھنے کی کوشش کرتے اور اسے نئے طریقے سے اپنی خبروں اور رپورٹس میں استعمال کرتے ان کی دینی معلومات کا معترف ہوں وہ دینی معلومات کے حوالے سے میرے استادوں میں شامل ہیں اور یہی وجہ تھی کہ وہ ایک عرصے تک دینی صفحے کے انچارج بھی رہے۔ اللہ اور رسول کریم ؐ سے محبت ان کے چہرے پر اس وقت نمایاں دکھائی دیتی جب وہ کسی قرآنی آیات، احادیث یا اسلامی واقعے کے بارے میں بتاتے ان کے چہرے پر میں نے عجیب سی روحانی چمک محسوس کی جس کی وجہ سے میں ان کے ساتھ مزید جڑتا چلا گیا یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ کیا چیز تھی جو ان کے اندر سمائی تھی جو خالق کائنات اور وجہ کائنات کا ذکر کرتے ہوئے ان کی آنکھوں اور گالوں پر نمایاں دکھائی دیتی تھی۔
وہ انتہائی خود دار انسان تھے شریف النفسی کے باعث اپنی سفید پوشی کو عیاں کرنے سے بہتر جان دینا پسند کرتے تھے میں جانتا ہوں کہ کئی مرتبہ اداروں کی غفلت اجاگر کرنے پر انہیں سوچ سے زیادہ رقومات کی آفر ہوئیں لیکن انہوں نے رد کر دیں صرف ایک بات پر کہ کچھ پر گزارہ کرلوں گا مگر اپنے اور اپنے اہل وعیال کے پیٹ میں حرام لقمہ نہیں اُتاروں گا۔ مادیت پرستی کے اس دور میں ایسے صحافی ملنا مشکل ہوتے جا رہے ہیں جو صرف ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہیں۔ قاضی عمران کہتے تھے کہ جب بھی کوئی کام کرنا ہو کسی سے مشورہ کرنے کی ضرورت نہیں تنہائی میں اللہ کو حاضر ناظر جان کر ضمیر سے مشورہ کر لو ضمیر راضی ہو تو کام کر لو ورنہ راہ فرار اختیار کرلو، پیشہ ورانہ صحافت میں ان کی تعریف میں ہمیشہ اس طرح کرتا تھا کہ قاضی عمران ’’قلم میں اڑان بھرنے والا صحافی‘‘ ہے میں بیس سال کی مکمل رفاقت کا ذکر کروں تو قاضی عمران اور میری رفاقت پر ایک ضخیم کتاب لکھی جاسکتی ہے جس میں وہ مجھ سے اور میں ان سے سیکھتا رہا اور حقیقت ہے کہ اس معاملے میں انہیں استاد ہی مانتا ہوں کہ سکھانے میں وہ آگے آگے رہے، میں نے ان سے ہر حال میں صبر اختیار کرنا بھی سیکھا وہ واحد صحافی تھے جو خود بھی صبر کے پیکر تھے اور مجھے بھی صبر سکھا کر جہان فانی سے کوچ کر گئے جس کا خلا زندگی بھر رہے گا، اللہ تعالیٰ ان کی کامل مغفرت فرما کر درجات بلند فرمائے اور دعاگو ہوں کہ جب تک زندگی ہے ان کا نعم البدل ملنا تو مشکل ہے قریب تر عطا فرمائے۔ آمین