تحریکِ انصاف، تخریبِ دیوار و در تک

456

پاکستان کے عوام کو تحریک انصاف سے بڑی امیدیں وابستہ تھیں۔ پوری خلائی اور زمینی طاقتیں گزشتہ تمام حکمرانوں اور ہر قسم کے چھوٹے بڑے سیاسی رہنماؤں اور ان کی جماعتوں کو بری طرح بدنام کرنے دینے کے بعد نیک، دیانتدار، ایمان و یقین والے، پاک، صاف اور فرشتہ صفتوں کو فرش سے اٹھا کر عرش تک لے گئیں تھیں اور عوام کو پوری امید دلا چکی تھیں کہ یہ آبِ کوثر پیے اور زم زم نہائے لوگ ملک و قوم کی تقدیر بدل کر رکھ دیں گے کیونکہ ان کی پاکدامانی اور تقوے کی کہانیاں حورانِ جنت کے لبوں پر ہیں اور فرشتے اللہ کے دربار میں ان کی تسبیح دن رات پڑھا کرتے ہیں۔ ان کے آتے ہی آسمان سے رحمتوں کا نزول ہونے لگے گا اور ایسی ایسی کراماتیں اور معجزات ظہور پزیر ہونے لگیں گے جو کسی نے نہ تو پیروں فقیروں کے دور میں دیکھے ہوںگے اور نہ ہی (نعوذباللہ) پیغمبران کرام کے ہاتھوں چشم فلک کو نظر آئے ہوںگے مگر ہوا یہ کہ
آزاد فضا دیکھی زنجیر نظر آئی
کیا خواب تھا کیا اس کی تعبیر نظر آئی
گیس، بجلی اور پٹرول کے نرخوں کو فرش پر ناک رگڑنا تھا، عرش کی بلندیوں کو چھونے لگے۔ ڈالر کو خاک نشینی اختیار کرنی تھی، ثریا و برجیس بن بیٹھا۔ کروڑوں نوکریاں ملنا تھیں، لکھوکھا افراد بیروزگار کردیے گئے۔ بستیاں تعمیر کرنی تھیں، ہستی بستی بستیاں سسکیوں اور آہوں کی گونج میں مسمار کردی گئیں۔ کاروبار کو وسعت دینی تھی، بازار کے بازار ڈھا دیے گئے۔ غریبوں کے لیے مکانات بنا کر بے چھتوں کے لیے چھت فراہم کی جانی تھی، امیروں اور پیسے والوں کے لیے اسکیمیں بنائی جانے لگیں۔ نئے نئے راستے نکالنے تھے، شاہراہیں بنانی تھیں، پل تعمیر کرنے تھے، اداروں کی ساکھ بڑھانی تھی، شہروں کو صاف ستھرا بنانا تھا، تعلیم گاہیں تعمیر کرنی تھیں، صحت کے مراکز قائم کرنا تھے، بسیں اوپر سے اور ٹرینیں زمین پر دوڑانی تھیں، کھانے پینے کی ساری اشیا سستے داموں بازار میں فروخت کرنا تھی اور آسمان سے من و سلویٰ کی بارش برسانی تھی لیکن جو کام بھی کیے وہ سارے کے سارے دعوں اور وعدوں کے خلاف ہی سامنے آئے تو مایوس سپورٹروں نے دل کو یہ کہہ کر مطمئن کرنا شروع کردیا کہ خان کا پتا نہیں کہ وہ کیا کیا دعوے کرکے آیا تھا ہمیں اگر خبر ہے تو بس اتنی ہے کہ خان نہ تو کرپشن کرے گا اور نہ ہی کرپٹ لوگوں کو چھوڑے گا اور ملک کی لوٹی ہوئی دولت کو لٹیروں کے پیٹوں سے باہر نکال کر ہی دم لے گا لیکن
اُلٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوانے کام کیا
آخر اس بیماری دل نے اپنا کام تمام کیا
جس دن سے بے ایمان، دولت کو لوٹنے والے، چور، لٹیرے، ڈاکو، ملک کی سیکورٹی کے لیے سخت خطرے والے بڑے بڑے ڈانوں کو حکومت سے دیس نکالا ملا ہے اور صادقوں اور امینوں کی حکومت قائم ہوئی ہے لگتا ہے کہ ابلیس کے چیلوں نے پوری قوت کے ساتھ پنجہ آزمائی شروع کردی ہے۔ خان ملک کو ریاست مدینہ بنانا چاہتا ہے، ابلیس اور اس کے چیلے بولہبی و بوجہلی کی جانب دھکیل کر لے جارہے ہیں۔ خان غریبوں کو روزگار دلانے کی جدو جہد کر رہا ہے تو ابلیسیے ان کے روزی چھین چھین کر لے جارہے ہیں اور خان چاہتا ہے ملک ترقی کی منازل طے پر طے کرتا چلا جائے تو ابلیسیے ایسی ایسی رکاوٹیں پیدا کر رہے ہیں کہ خان سمیت زمینی اور خلائی طاقتوں کو سمجھ میں نہیں آرہا کہ ان رکاوٹوں کو ترقی کی شاہراہوں سے دور کریں تو کیسے کریں۔ زندگی کا کوئی شعبہ بھی ایسا نہیں جہاں نور و ظلمت کی ستیزہ کاریاں خان کے ’’وژن‘‘ میں دراڑیں ڈالتے نظر نہ آ رہی ہوں۔
ایک تو پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا اپنی شیطانیوں سے باز آکر نہیں دے رہا۔ روز مارکیٹ میں ایک نیا کھڑاک کھڑا کر دیتا ہے۔ اب بھلا جسارت کو یہ خبر لگانے کی کیا مصیبت پڑی تھی کہ عید الاضحیٰ سے قبل ہی دودھ، دہی، ٹماٹر، دھنیا، پیاز آلو اور دیگر سبزیوں کی قیمتوں میں ہوش ربااضافہ کردیا گیا ہے۔ سبز مصالحے اور موسمی سبزیاں عام آدمی کی پہنچ سے دور ہورہی ہیں جس کے باعث 20 روپے کلو بکنے والے ٹماٹر کی قیمت 100سے 120روپے، پیاز 40 سے 50 روپے، ادرک 330 سے 400 روپے، لہسن 250 سے 300 روپے، سبز مرچ 120 روپے اور سبز دھنیا 400 روپے فی کلو تک پہنچ گیا ہے۔ اس قسم کی مہنگائی تو اب اتنی عام ہوچکی ہے کہ خبر انگور سے کشمش اور کھجور سے چھوہارے میں تبدیل ہو چکی ہے۔ ایسی ساری خبریں منفی اور حکومت کے اپنے اعلیٰ ’’وژن‘‘ کے لیے غیر صحت مندانہ ہیں اس لیے ایسی تمام خبروں کے خلاف خان کی حکومت کو سخت ایکشن لینا چاہیے۔
یہ بات کوئی ضروری نہیں ہوا کرتی کہ اگر کسی ہاکی یا فٹبال کی ٹیم کو اپنے پہلے ہاف میں صفر کے مقابلے میں کئی کئی گولوں سے شکست کا سامنا ہو تو دوسرے ہاف میں انہیں برابر کرنے کے بعد مزید ایک آدھ گول سے کامیابی حاصل نہیں کی جا سکے۔ پہلے اور دوسرے ہاف کے مقررہ وقت میں ایک سیکنڈ کا بھی فرق نہیں ہوا کرتا۔ متعدد بار دیکھا گیا ہے کہ شکست کھاتی ہوئی ٹیم کامیابی کے جھنڈے گاڑ کر میدان سے لوٹ رہے ہوتی ہے۔ خان کے سارے سپروٹروں نے امید کے دامن کو ابھی تک یہی سوچ کر ہاتھ سے نہیں چھوڑا ہے کہ کھیل کا دوسرا ہاف باقی ہے اور 1992 میں بھی ایک ایسا معجزہ ظہور پزیر ہو چکا ہے۔ بس کوئی چیز ان کو تڑپاتی ہے تو یہ بشری اضطراب ہے کہ
عاشقی صبر طلب اور تمنا بیتاب
دل کا کیا رنگ کریں (کروں) خونِ جگر ہونے تک