قرآن کی با ترجمہ تعلیم مستحسن فیصلہ

721

پاکستان کی قومی اسمبلی نے متفقہ قرارداد منظور کی ہے کہ ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں قرآن پاک ترجمے کے ساتھ پڑھایا جائے گا۔ قرارداد کے محرک پارلیمانی امور کے وزیر مملکت علی محمد خان تھے۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی اسلامی جمہوریہ ہے اور دستور میں واضح کیا گیا ہے کہ یہاں بالادست قانون قرآن و سنت ہی ہوگا۔ اس قرارداد کے مطابق جن صوبوں کی جامعات میں قرآن پاک ترجمے کے مطابق نہیں پڑھایا جا رہا وہاں بھی اسے اردو ترجمے کے ساتھ پڑھایا جائے گا۔ یہ بات بھی بجا ہے کہ قرآن پاک کا اردو ترجمہ پڑھنے سے آنے والی نسلوں کے لیے علم کے راستے کھلیں گے۔ قومی اسمبلی کی قرارداد کی نہ صرف تحسین کرنی چاہیے بلکہ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو اس پر عملدرآمد یقینی بنانا چاہیے۔ یوں تو پاکستانی قومی اسمبلی نے پہلے بھی بہت سی قراردادیں منظور کی ہیں اور ان پر عمل نہیں ہو سکا۔ کئی اہم فیصلے آج تک روبہ عمل نہیں آئے۔ موجودہ قومی اسمبلی نے قرارداد 18 ستمبر 2018ء کو منظور کی تھی کہ حکومت ملک میں پانی کی قلت دور کرنے کے لیے نئے ڈیم بنائے گی۔ اسی قسم کی قرارداد تھی کہ تمام یونیورسٹیز میں پینے کے صاف پانی کے لیے حکومت فلٹریشن پلانٹس لگائے گی۔ کیا یہ دونوں کام ہو گئے۔ ظاہر ہے یہ تو نہیں ہونے تھے۔ پاکستان کی قومی اسمبلی نے پیپلز پارٹی کے دور میں متفقہ قرارداد منظور کی تھی کہ اگر اب امریکی ڈرون طیاروں نے حملہ کیا تو انہیں گرا لیا جائے گا۔ لیکن اس کے بعد بھی حملے ہوئے کوئی طیارہ نہیں گرایا گیا۔ پاکستان کی قومی اسمبلی نے واحد تاریخی فیصلہ امتناع قادیانیت یا قادیانیوں کو کافر قرار دینے کا کیا تھا جس پر پوری طرح عمل کیا گیا اور موجودہ حکمرانوں سمیت کئی حکمرانوں نے اس فیصلے سے چھیڑ چھاڑ کی کوشش کی اور وہ کسی نہ کسی وجہ سے اقتدار سے باہر ہوگئے۔ سود کی حرمت کے حق میں اسمبلی، پارلیمنٹ، عدالت سب نے فیصلے دیے لیکن سود کا کاروبار پوری قوت سے جاری ہے۔ اردو کو سرکاری زبان بنانے کے حق میں اسمبلی کی قراردادیں موجود ہیں لیکن اسمبلی کی قراردادوں اور عدالتی فیصلوں کے باوجود اردو سرکاری زبان نہ بن سکی۔ تازہ قرارداد کی منظوری کو اس گھٹن کے ماحول میں تازہ ہوا کا جھونکا کہا جائے یا کسی نئی سازش کا پیش خیمہ۔ اس خیال کا سبب یہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ کی پہلی حکومت ہے جس کے اقتدار سنبھالنے سے اب تک دو برس کے دوران مسلسل اسلام دشمن اقدامات دیکھنے میں آرہے ہیں۔ قادیانیوں اور غیر مسلموں کی سرپرستی نظر آرہی ہے۔ قادیانیت سے ہمدردی بہت سے وزیروں کی گفتگو سے عیاں ہے۔ اچانک اس کے ایک وزیر نے قرآن پاک ترجمے کے ساتھ پڑھوانے کی قرارداد منظوری کے لیے پیش کی اور یہ متفقہ طور پر منظور ہو گئی۔ چند ہی روز قبل اسی اسمبلی میں مندر کی تعمیر کے حق میں وزرا دلائل دے رہے تھے اور دلائل دیتے دیتے پاکستان کی تاریخ کو ہی توڑ مروڑ کر پیش کر رہے تھے۔ احرار کی طرف سے قائداعظم کو کافراعظم کہنے کے الزامات کی تائید ہو رہی تھی لیکن ایک ہفتے میں یہ تبدیلی آگئی۔ پاکستانیوں کی بدقسمتی ہے کہ اس ملک کے عوام کو سازش کا پتا اس پر عمل ہونے کے بعد چلتا ہے۔ آج کل وفاقی حکمران آئین کی 18 ویں ترمیم میں تبدیلیوں کا مسودہ لیے گھوم رہے ہیں۔ 18 ویں ترمیم صرف صوبوں کا معاملہ نہیں ہے اس کی ایک شق میں آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت آئین کو معطل کرنے کو بھی غداری کے زمرے میں شامل کرنے کی بات ہے۔ اس ترمیم میں آرٹیکل 6-2 الف کا اضافہ کرکے یہ قرار دیا گیا تھا کہ آرٹیکل 6 کی خلاف ورزی کرنے والے کو عدالت عظمیٰ سمیت کوئی عدالت معاف نہیں کر سکتی۔ 18 ویں ترمیم کے ذریعے 1973ء کے آئین میں 100 کے قریب تبدیلیاں کی گئیں اس سے آئین کی 83 دفعات متاثر ہوئیں۔ یہ بڑا محنت طلب کام ہے۔ سیاسی پارٹیوں کے پارلیمانی سیلز کو توجہ دینا ہوگی کہ ابھی ایسی ترامیم کی جارہی ہیں جن پر کسی کو اختلاف نہیں لیکن اچانک کوئی ایسی ترمیم یا فیصلہ آجاتا ہے جس میں بہت سے سابقہ فیصلوں کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ ایسی صورت میں محض قرارداد کی منظوری پر خوش ہونے کی ضرورت نہیں۔ پاکستانی تعلیمی اداروں میں پڑھانے والے نصاب سے پی ٹی آئی حکومت نے جو اسلامی اسباق نکالے ہیں جہاد سے متعلق آیات حذف کی گئی ہیں، امہات المومنین کے بارے میں اسباق خارج کیے گئے ہیں اس حکومت کی جانب سے قرآن با ترجمہ پڑھانے کی قرارداد حیرت انگیز ہے لیکن پھر بھی اس کی تائید کی جانی چاہیے اور اس پر عمل میں اسے آسانی اور مدد دی جانی چاہیے اور اس سے روگردانی سے روکنے کے لیے ہر دم تیار رہنا چاہیے۔ قرآن پاک با ترجمہ پڑھانے کے نتیجے میں صرف دس برس میں ملک بھر میں دین سے شغف رکھنے والوں کی بہت بڑی تعداد موجود ہوگی۔ اگر یہ فیصلہ روبہ عمل آگیا تو پاکستان کے لیے بڑا خوش آئند ہوگا۔