مقبوضہ کشمیر اور سویا ہوا عالمی ضمیر

222

سمیع للہ ملک
کشمیری گزشتہ 7 دہائیوں سے زائد عرصے سے عالمی ضمیر کو جگانے کی کوشش کررہے ہیں، بالخصوص پچھلے 2 عشروں سے آزادی کی تحریک میں ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں نے اپنی جان کی قربانی دے کر آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد اور عزم پوری آب وتاب سے جاری رکھا ہوا ہے۔ بھارتی ظلم وستم اورجبری تسلط کے خلاف کچھ دیر کے لیے یہ تحریک مسلح جدوجہد کی صورت میں بھی جاری رہی لیکن گزشتہ برس 5 اگست کو بھارت کی ہندو انتہا پسند تنظیموں اور ان کی سرپرست سیاسی جماعت بی جے پی کے کٹھ پتلی وزیر اعظم نریندر مودی کے ہاتھوں بھارتی اور بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد اب تک بھارت نے کرفیواورلاک ڈائون کے دوران کشمیرمیں جو ظلم وستم کا بازارگرم کر رکھا ہے، اس سے پوری دنیا خوب آگاہ ہے، تاہم اب تک کسی بھی عالمی ادارے کو بھارتی بہیمانہ ظلم و ستم روکنے کے لیے خاطر خواہ اقدام اٹھانے کی توفیق نہیں ہوئی۔ اگر کسی انسانی ہمدردی کے ادارے نے کشمیرکے معاملے میں لب کھولنے کی جسارت بھی کی تو دنیاکی سب سے بڑی جمہوریت کانعرہ لگانے والی بھارتی سرکارنے کشمیر تک رسائی دینے سے صاف انکارکردیا جب کہ دوسری جانب کشمیرمیں ہونے والے ظلم وستم کی داستانیں تاحال عالمی ضمیرکو مسلسل جھنجھوڑ کر بیدار کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔
10برس قبل بعض مشروط پابندیوں کے ساتھ بھارت نے یورپی یونین کے ایک وفد کو بھولے سے کشمیرجانے کی اجازت دی تواس وفدنے محدود وقت اوربے شمار پابندیوں کے باوجود جو 70 صفحات پرمشتمل ایک چشم کشارپورٹ مرتب کی، اس کاحاصل ایک جملہ یہ بھی تھا کہ ’’کشمیردنیاکی خوبصورت ترین جیل ہے‘‘۔ 18سے24مئی2010ء تک ایمنسٹی انٹرنیشنل کے 4 رکنی وفدنے بکرم جیت باترا کی سربراہی میں وادی کے سیاسی، غیرسیاسی اورسول سوسائٹی کے کئی افراد سے ملاقاتیں کرنے کے علاوہ کئی دوسرے آزاد ذرائع سے معلومات حاصل کرکے اس رپورٹ کے باضابطہ اجرا کے لیے 2 بار سری نگر کا دورہ کیا اور اپنی پریس کانفرنس میں اس رپورٹ کوایک کتابی شکل میں کشمیری عوام اورذرائع ابلاغ کے نمایندوں کے سامنے پیش کردیا۔
حریت کانفرنس کے دونوں دھڑوں کے رہنماؤں سیدعلی گیلانی، میر واعظ عمرفاروق کے علاوہ دیگر کشمیری رہنماؤں شبیراحمد شاہ، لبریشن فرنٹ کے ملک یاسین اور نعیم خان نے بھی اس رپورٹ کا زبردست خیرمقدم کرتے ہوئے عالمی برادری سے نوٹس لینے اور کشمیر کی صورت حال پر توجہ دینے کی اپیل کی تھی۔اس رپورٹ کے حقائق کواس وقت کے کشمیرکے وزیراعلیٰ عمرعبداللہ بھی جھٹلا نے کی ہمت نہ کر سکے اورکچھ تحفظات کے ساتھ اس رپورٹ کی روشنی میں کچھ اصلاحی اقدامات اٹھانے اوراس کو ردی کی ٹوکری میں نہ پھینکنے کاسیاسی وعدہ کیے بغیرنہ رہ سکے، تاہم ان کے دور حکومت میں ایسی کوئی پیش رفت ہو سکی نہ کسی وعدے کو نبھانے کی کوشش کی گئی۔
70 صفحات کی اس رپورٹ میں کشمیریوں کی حالتِ زار کاجونوحہ بیان کیاگیااس میں سرِ فہرست ’’پبلک سیفٹی ایکٹ‘‘ جیسے ظالمانہ قانون کوہدفِ تنقید بنایاگیاتھاجس کوخود بھارتی سپریم کورٹ ’’کالا قانون‘‘ قراردے چکی ہے۔ اس رپورٹ میں بھارتی حکومت کے ساتھ عدلیہ کوبھی برابرکاقصورواراور شریک مجرم قراردیاگیا تھا۔ انہی ظالمانہ قوانین کی بنا پرآج تک مودی سرکار، عدلیہ کے کسی بھی فیصلے اور کسی بھی حکم کونہ صرف نظراندازکردیتی ہے بلکہ بعض معاملات میں عدلیہ کے فیصلوں کی کھلم کھلا دھجیاں اڑائی جاتی ہیں اورکئی مقدمات میں عدلیہ کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ زمینی حقائق تویہ ہیں کہ آج بھی سیکورٹی و انٹیلی جنس ادارے اورپولیس خودکوقانون سے بالاترسمجھتے ہوئے عدلیہ کے فیصلوں کی کوئی پروا نہیں کرتے اوران کے ہاتھوں جاری مظالم کوروکنے والا کوئی ایسا آہنی ہاتھ سرے سے موجودہی نہیں جو انہیں کشمیری عوام پر غیرقانونی ظلم وستم روارکھنے سے روک سکے۔
پبلک سیفٹی ایکٹ جو بین الاقوامی قانون کی صریحاًخلاف ورزی ہے اورخودبھارت کی اعلیٰ عدالتیں بھی اس کوکالا قانون قراردے چکی ہیں لیکن اس کے باوجود اس قانون کابے ہنگم استعمال ہورہا ہے۔ دنیا کا کوئی قانون معصوم بچوں پرظلم وستم روارکھنے کی اجازت نہیں دیتا لیکن کشمیرمیں ہزاروں نابالغ بچے اس کالے قانون کے تحت نظربند ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی اس رپورٹ میں بڑی وضاحت کے ساتھ تصدیق کی ہے کہ اس کالے قانون کے نام پرلاقانونیت کابازارگرم ہے۔ اس رپورٹ میں2003ء سے لے کر 2010ء تک کے ان مقدمات کا جائزہ لیاگیاتھاجواس کالے قانون کے تحت درج کیے گئے۔ اس تحقیق سے پتا چلا کہ پبلک سیفٹی ایکٹ کے ظالمانہ قانون کے تحت انسانی حقوق کی زبردست پامالی کی گئی اوراس عرصے میں اس وحشیانہ قانون کے تحت 8 ہزار سے زائد لوگوں کو قیدی بنایا گیا جب کہ صرف جنوری 2010ء سے لے کر 31 دسمبر 2010ء کے آخر تک 322 افراد کو گرفتار کرکے بے پناہ اذیتوں سے دوچار کیا گیا۔ رپورٹ میں مزیدیہ انکشاف بھی کیاگیاکہ اس انسانیت سوز قانون کے تحت جن افرادکو گرفتار کیاگیا،انہیں نہ تو فوری طورپرگرفتاری کی وجوہات سے آگاہ کیاگیااورنہ ہی ان کواپنی صفائی کے لیے کسی قانونی امدادکی سہولت فراہم کی گئی۔
ایک طرف تو ریاست کے عسکری ادارے اس بات کااعتراف کرتے ہیں کہ اب وادی میں اب کوئی جنگجو سرگرم نہیں اور دوسری طرف 5 اگست کے جابرانہ عمل کے بعدپہلے سے موجود 10 لاکھ فوج کے علاوہ مزیدسیکورٹی اورانٹیلی ایجنسیوں، اداروں کی بھرمار نے کرفیواورلاک ڈا ون کی آڑمیں ہر کشمیری مردوزن اوربچوں کودنیاکی اس خوبصورت جیل میں ہراساں کرنے کاکام جاری رکھاہوا ہے۔ اس قانون کے تحت جہاں آزادی پسندقیادت کی پہلی اوردوسری صف کے رہنماؤں کوجیل میں رکھ کران کی آواز دبانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، وہیں مجبور و مقہور بوڑھے مردوزن اوربچے بھی اس قانون کی دسترس سے محفوظ نہیں۔ اپنے بنیادی انسانی حقوق کا مطالبہ کرنے والے کشمیریوں کو ان کے گھروں سے اغوا کرکے اسی غیرقانونی قانون کے تحت انتقام کانشانہ بنایاجارہا ہے ۔
اس رپورٹ میں دنیاکی سب سے بڑی جمہوریت کادم بھرنے والی بھارتی سرکارکے چہرے سے یہ نقاب بھی اٹھایاگیاکہ کشمیرمیں حکومتی ادارے پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار افرادکوعدالت میں مجرم ثابت کرنے اورانہیں سزادلوانے کے بجائے ان بے گناہ افرادکوجیلوں میں بندرکھنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں اور ان مبینہ قوانین کے تحت متوازی ظالمانہ فوجداری نظام چلایاجارہاہے۔ رپورٹ میں اس ظالمانہ قانون، انتظامی حراست کوفوری منسوخ کرنے، نظربندوں پر فوری باقاعدہ فردِ جرم عائدکرنے،مجسٹریٹ کے سامنے فوری پیشی کویقینی بنانے، اسیروں کے لیے قانونی مشورے، طبی معاینے کی سہولت اور عزیزواقارب کے ساتھ رابطے کی سہولت فراہم کرنے کویقینی بنانے کامطالبہ کیاگیاتھا۔
رپورٹ میں کئی اور سفارشات کوبھی شامل کیاگیاتھاجس میں بھارتی حکومت سے مطالبہ کیاگیاکہ بین الاقوامی قانون کے تحت اقوام متحدہ کے خصوصی اداروں کی رسائی کویقینی بنایا جائے اورانسانی حقوق کے بین الاقوامی اداروں کی رپورٹس برائے ایذارسانی اور ورکنگ گروپ برائے غیرقانونی گرفتاری کی سفارشات کابھی فوری جائزہ لیاجائے لیکن افسوس کہ آج حالات پہلے سے بھی زیادہ بدترہوگئے ہیں اوراقوام عالم کے حقوق انسانی کے دعوے بھی دھرے کے دھرے رہ گئے اور اب کروناکی آڑمیں تومودی سرکارنے جہاں ظلم وستم کابازراگرم کر رکھا ہے، وہاں مودی چین کے ہاتھوں لداخ میں شرمناک ہزیمت کے بعد بے گناہ کشمیریوں پر اپنی گھنا ونی سازشوں کے تحت کشمیریوں کی آبادی کے تناسب کوتبدیل کرنے کے لیے غیرکشمیریوں کو کشمیر میں آبادکرنے کاعمل شروع کرچکے ہیں جوکہ اس خطے میں امن کے لیے کبھی بھی ایک دھماکے کی صورت میں تبدیل ہوسکتے ہیں۔