ٹرمپ یکطرفہ فیصلوں سے امریکا کی عالمی تنہائی تک

194

یہ بات تاریخی طور پر ثابت ہے کہ کوئی بھی امریکی انتظامیہ ہو، وہ ’’سب سے پہلے امریکا‘‘ کی پالیسی پر گامزن رہتی ہے۔ موجودہ امریکی انتظامیہ نے بھی اپنے اس روایتی راستے کو ترک نہیں کیا لیکن اس راستے پر سفر کے دوران تمام تر تکلفات اور سفارتی آداب کو بالائے طاق رکھ دیا۔ گزشتہ چند برس کےدوران ہم نے ایسے بہت سے یک طرفہ فیصلے دیکھے ہیں جن میں امریکا نے اپنے نہایت قریبی اتحادیوں کو بری طرح نظر انداز کیا۔ اس وقت عالمی ذرائع ابلاغ خصوصاً امریکی میڈیا میں یہ سوال شدت سے گردش کر رہا ہے کہ کہیں تحفظ پسندی کی اس راہ پر تیزی سے چلنے کی وجہ سے امریکا کے قریبی اتحادی پیچھے تو نہیں چھوٹ گئے؟ کہیں امریکا عالمی سطح پر تنہائی کا شکار تو نہیں ہوگیا؟
اس تناظر میں جرمن چانسلر انجیلا مرکل کا 26 جون کو برطانوی اخبار ’’دی گارجیئن‘‘ کو دیا گیا ایک انٹرویو ملاحظہ فرمائیے۔ وہ کہتی ہیں کہ اگر امریکا عالمی طاقت کی حیثیت سے اپنے کردار کو ترک کرتا ہے تو جرمنی کو مستقبل میں دونوں ممالک کے تعلقات کے حوالے سے نظر ثانی کرنا ہوگی۔ اسی انٹرویو سے متعلق، دی گارجیئن کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حالیہ برسوں میں جرمنی اور امریکا کے درمیان عسکری اخراجات، ماحولیاتی تبدیلیوں، تجارتی تنازعات، نورڈ اسٹریم 2 گیس پائپ لائن منصوبے اور ایرانی جوہری معاہدے سمیت کئی امور پر اختلافات رہے ہیں۔ جون 2020ء کی 15 تاریخ کو امریکی صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ جرمنی میں امریکی فوجیوں میں نمایاں کمی واقع کی جائےگی اور بالآخر ایسا ہی ہوا۔ نیٹو کے لیے امداد کے معاملے پر دونوں ممالک کے مابین تناؤ شدت اختیار کرگیا اور تجزیہ کاروں کے مطابق نتیجتاً صدر ٹرمپ نے جرمنی سے امریکی فوجیوں کے انخلا کا حتمی فیصلہ کیا۔
روس امریکا گیس پائپ لائن پر امریکی رویّے پر تبصرہ کرتے ہوئے جرمن نشریاتی ادارے کے مبصر میودراگ زورِچ نے کہا کہ کیا جرمنی کو اپنے مفادات اور ان کا تحفظ کرنے کا حق ہے؟ اگر امریکی حکومت سے پوچھیں تو اس کا جواب ہوگا ضرور، لیکن صرف امریکی آشیرباد سے! امریکا نے روس اور جرمنی کے درمیان زیر سمندر نورڈ اسٹریم ٹو گیس پائپ لائن بنانے پر یورپی کمپنیوں پر پابندیاں لگانے کی دھمکی دے رکھی ہے۔ یہ پائپ لائن 96 فیصد مکمل ہو چکی ہے۔ بحیرہٴ بالٹک کی تہہ میں بچھائی جانے والی، قدرتی گیس کی یہ پائپ لائن روس سے سیدھی جرمنی جائے گی اور پھر وہاں سے یورپی یونین کے دیگر ملکوں سے منسلک ہو جائے گی۔ جرمن معیشت کا انحصار برآمدات پر ہے اور اس کی صنعت وتجارت کےلیے توانائی کی ترسیل یقینی بنانا ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جرمنی کے کاروباری حلقے اور حکومت، دونوں اس پائپ لائن کی تعمیر کے حق میں ہیں تاہم امریکی وائٹ ہاؤس کو ان سب باتوں کی کوئی پروا نہیں۔ صدر ٹرمپ نے اس پائپ لائن کو روکنے کا تہیہ کر رکھا ہے، چاہے کچھ بھی ہوجائے۔
جرمنی میں امریکا کے سابق سفیر رچرڈ گرینل ان لوگوں میں شامل ہیں جو ٹرمپ کو اس کی ترغیب دیتے آئے ہیں، تاہم اس قدرے غیرسفارتی سفارت کار نے آخرکار امریکا اور جرمنی کے دو طرفہ تعلقات کی بہتری میں اب اپنا حصہ ڈال دیا ہے۔ انہوں نے یکم جون کو استعفا دیا اور جرمنی سے چلے گئے ہیں۔
میودراگ زورِچ کے مطابق یورپی ممالک خصوصاً بڑی طاقتوں کے درمیان اختلافات کا بڑا فائدہ چین کو ہوگا۔ جب مغربی ممالک آپس میں لڑتے ہیں تو اس سے امریکا کے مقابلے میں چین مضبوط ہوتا ہے۔ اگر یہی رویہ رہا تو امریکا چین کے ساتھ اپنی تجارتی لڑائی میں یورپ پر زیادہ انحصار نہیں کر سکے گا۔ رواں ماہ جرمنی یورپی یونین کی ششماہی صدارت سنبھال چکا ہے۔ جرمن چانسلر مرکل کا اب بھی ارادہ ہے کہ وہ یورپی یونین کے تمام سربراہان کے ساتھ مل کر چین کے صدر شی جن پنگ کے ساتھ کسی نہ کسی مرحلے پر ملاقات کریں گی۔
حالیہ برسوں میں مختلف مواقع پر امریکا نے اپنے اتحادیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے یک طرفہ فیصلے کیے ہیں۔ سی این این نے اس حوالے سے ایک تبصرہ کیا کہ امریکا ایک لاوارث بچہ ہے جو کووڈ 19 کی وبا کا ایک ناقابل اعتبار اتحادی بن رہا ہے اور تاریخ کے کسی بھی دور سے زیادہ تنہائی کا شکار ہو چکا ہے۔ مضمون میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ وبا کی سنجیدگی کے سامنے ٹرمپ کی جانب سے جراثیم کش ادویہ کے ٹیکے لگانے اور ہائیڈروکسی کلوروکوین کھانے کے مشوروں سے نہ صرف ماہرین صحت نے عدم اتفاق کیا بلکہ ٹرمپ کی آرا کو بھی غیر مؤثر کردیا۔ چین کے مقابلے میں امریکا اپنے لوگوں کے تحفظ میں ناکام رہا ہے۔
رواں سال مئی میں عالمی ادارہ صحت کے سالانہ اجلاس میں یورپ نے وبا کے خلاف چینی ردعمل کی تحقیقات کے حوالے سے امریکا کے شدید دباؤ کا سامنا کیا۔ اس حوالے سے اس مضمون میں سوئیڈن کے سابق وزیراعظم کارل بلٹ کے ایک بیان کا حوالہ دیا گیا ہے۔ کارل بلٹ کہتے ہیں کہ امریکا کے بعد کی دنیا کا مشاہدہ کریں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ چین کا اسٹریٹیجک نقطہ نظر زیادہ واضح ہے اور چین زیادہ پراعتماد ملک ہے۔ یورپی یونین عالمی تعاون کو تباہی سے بچانے کےلیے کوشاں ہے جبکہ امریکا کووڈ 19 کی وبا کا مقابلہ کرنے سے زیادہ چین کا مقابلہ کرنے کا خواہش مند ہے۔
امریکی اخبار ’’نیو یارک ٹائمز‘‘ کی جانب سے انکشاف کے بعد یکم جولائی کو یہ بات ثابت ہو گ ئی کہ یورپی یونین نے مرحلہ وار اپنی بیرونی سرحدیں کھول دی ہیں، تاہم امریکی سیاحوں کے داخلے پر عارضی طور پر پابندی عائد کی جاسکتی ہے۔ یہ نہ صرف امریکا کی ساکھ کو بھاری دھچکا ثابت ہوا بلکہ وبا سے مقابلے کے ٹرمپ کے دعووں کی کھلی تردید بھی ہوگئی۔ مضمون میں خیال ظاہر کیا گیا ہے کہ امریکا اب کئی شعبوں میں بیرونی دنیا کے ساتھ ’’عدم اطمینان‘‘ کی کیفیت کو چھپا نہیں سکتا۔ بین الاقوامی تعاون کا میدان ہو، تجارت، نیٹو یا شام وغیرہ جیسے مسائل، ٹرمپ کی غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے امکان ہے کہ یورپ اب چین کی طرف ہوگا۔
ٹرمپ نے متوقع بین الاقوامی اصولوں کے ساتھ بہت سے روابط منقطع کردیے ہیں، جن کی قیمت باقی دنیا کو بھی چکانی پڑ رہی ہے۔ اگرصورت حال ایسے ہی برقرار رہی تو امریکا گزشتہ چند دہائیوں کے مقابلے میں پہلے سے کہیں زیادہ تنہا ہوسکتا ہے۔