پاکستان کا پاور سیکٹر

563

طویل لوڈشیڈنگ کے باعث کراچی کے پریشان حال اور نیند و آرام سے محروم عوام پر بے رحمی اور سنگدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکومت اور اپوزیشن دونوں سیاست بازی کررہے ہیں۔ قومی اسمبلی میں تقریروں، شور شرابے، مائیک پھینکنے اور واک آئوٹ کرنے کے تماشے کررہے ہیں۔ حکومت پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں کو اس کا موردِ الزام ٹھیرا رہی ہے کہ نجکاری اور موجودہ کمپنی کو ان حکومتوں کے دور میں حوالے کیا گیا جب کہ اپوزیشن اسے حکومت کی نااہل اور غیر ذمے داری سے جوڑ رہی ہے۔ اب حال ہی میں دو ہفتے کی طویل اور لوڈشیڈنگ جس نے کراچی کے لوگوں کو بے حال اور بے آرام کردیا۔ ہر طرف سے احتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ امیر جماعت اسلامی کراچی محترم حافظ نعیم الرحمن نے بھی شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے مظاہروں اور دھرنوں کا اعلان کیا تو عمران خان نے لوڈشیڈنگ کا نوٹس لیتے ہوئے وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر، معاون خصوصی شہزاد قاسم اور گورنر سندھ عمران اسماعیل پر مشتمل کمیٹی بنادی ہے جو کے الیکٹرک کی انتظامیہ سے مل کر لوڈشیڈنگ کے مسئلے پر بات کرے گی۔
دوسری طرف وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے اس مسئلے کی دو وجوہات بتائی ہیں ایک تو یہ کہ آج کل سخت گرمی کے باعث بجلی کی طلب اس کی پیداوار سے زیادہ ہے اور دوسری طرف ملک میں ایسا کوئی انتظام نہیں کہ دوسرے علاقوں سے فاضل بجلی کو کراچی لایا جاسکے۔ لیکن پچھلے دنوں لوڈشیڈنگ پر کے الیکٹرک کے ترجمان کا یہ موقف سامنے آیا کہ فرنس آئل اور گیس کی کم فراہمی لوڈشیڈنگ کی وجہ ہے جس کی پی ایس او اور سوئی سدرن گیس کمپنی نے تردید کردی۔ چناں چہ اب وفاقی وزیر اسد عمر کی بات تسلیم کی جائے یا کے الیکٹرک کا موقف صحیح سمجھا جائے۔ پھر یہ کہ کے الیکٹرک سے یہ کوئی نہیں پوچھتا کہ اس نے خود پاور جنریشن کے لیے کیا سرمایہ کاری کی ہے۔ اووربلنگ کو ٹھیک کرنے کا کیا نظام ہے۔ اسی طرح یہ بات بھی مشکوک ہے کہ آج کل کراچی میں بجلی کی طلب اس کی پیداوار سے زیادہ ہے کیوں کہ لاک ڈائون کی وجہ سے بہت سی کاروباری اور معاشی سرگرمیاں بند ہیں۔ شام سات بجے سے تمام کاروبار بند ہوجاتا ہے ایسے میں بجلی کی طلب اور اس کا استعمال خود کم ہوجاتا ہے۔
مسئلہ صرف کے الیکٹرک ہی کا نہیں بلکہ پورے پاور سیکٹر کا ہے جس کے بارے میں وزیراعظم عمران خان اور مشیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ بھی بہت سخت الفاظ میں اس کی مذمت کرچکے ہیں۔ پورے ملک میں پچھلے پندرہ بیس سال میں جو خود مختار پاور پروجیکٹس لگائے گئے اُن بیرونی سرمایہ کاروں کے ساتھ پچھلی حکومتوں کے اعلیٰ حکام اور وزرا نے جن غیر منصفانہ اور ظالمانہ شرائط کے ساتھ معاہدے کیے وہ ملکی معیشت پر بہت بڑا بوجھ ہیں۔ سابقہ حکومتوں کا موقف یہ ہے کہ اس وقت پاکستان بے حد دبائو میں تھا بجلی کی بہت کمی تھی اور کوئی بیرونی سرمایہ کار پاکستان آنے کو تیار نہیں تھا۔ اس لیے ان شرائط پر معاہدے کیے اندرونی واقفان حال یہ بتاتے ہیں کہ بیرونی سرمایہ کاروں نے بجلی پیدا کرنے اور ملک میں فراہم کرنے کی شرائط و ضوابط تیار کیے اور انہیں پاکستانی اہلکاروں کے سامنے رکھ دیا جنہوں نے ان شرائط کو دیکھے بغیر دستخط کردیے۔ جس کی سزا آج تک گھریلو، تجارتی، صنعتی اور زرعی صارف بھگت رہا ہے۔ اُن ظالمانہ شرائط میں سے ایک پیداواری صلاحیتی ادائیگی (Capacity Charges) ہیں۔ یعنی ایک پاور پلانٹ کی پیداواری صلاحیت 1000 میگاواٹ ہے اور ملک کو مخصوص حالات میں 800 میگاواٹ کی ضرورت ہے تو ادائیگی 1000 میگاواٹ بجلی پیدا کرتے ہیں جب کہ سخت سردیوں کے موسم میں ملک بھر میں 4000 میگاواٹ بجلی کی طلب کم ہوجاتی ہے لیکن سرکاری خزانے سے 11000 میگاواٹ ہی کی ادائیگی لازمی ہے۔ اس سے آپ اندازہ لگالیں کہ اگر معاشی یا کاروباری معاملہ ٹھنڈا ہو، کوئی اور آفت خدا نخواستہ آجائے یا سردی کا موسم ہو جس سے بجلی کا استعمال کم ہوجائے لیکن ادائیگیاں پوری کرنا ہوں گی۔ اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق یہ ادائیگیاں جو پچھلے برسوں میں 600 ارب روپے تھیں آئندہ سال 900 ارب روپے تک جاسکتی ہیں۔ اس وجہ سے بجلی کو بار بار مہنگا کرنا پڑتا ہے اور اس وجہ سے پاکستان میں بجلی انتہائی مہنگی ہے جو ایک طرف ایک پاکستانی صارف پر بوجھ ہے۔ دوسری طرف کارخانوں اور فیکٹریوں میں پیداواری لاگت زیادہ ہونے کی وجہ سے صنعتی اشیا کی پیداواری لاگت بہت زیادہ ہے اس کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ پاکستانی اشیا مہنگی ہیں اور امپورٹڈ اشیا سستی ہیں۔ اس لیے صنعتی شعبہ ترقی نہیں کرسکا جب صنعتیں کم ہوں گی تو روزگار کے مواقعے کم ہوں گے اس کا دوسرا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان میں تیار شدہ مہنگی اشیا کی طلب باہر کی دنیا میں کم ہے۔ چناں چہ ہمارا برآمدی شعبہ کمزور ہے۔ جب برآمدات کم ہوں گی ڈالر کی آمدنی کم ہوگی اور روپے کی قدر مسلسل کم ہوتی جائے گی۔
پاور سیکٹر میں اصلاحات اور اس کو ریگولیٹ کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے جس کا فائدہ پوری ملکی معیشت کو ہوگا۔