پہنچی وہیں پہ خاک

645

عمران خان نے ایک بار پھر مافیائوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے۔ فرمایا کہ میں نے ’’نہیں چھوڑوںگا‘‘ سے توبہ کر لی اور اب لوٹی ہوئی دولت کو واپس لانے اور ملک سے دولت کو بیرونِ ملک لیجانے والوں کو الٹا لٹکانے والوں سے کہتا ہوں کہ میں نہ تو لوٹی ہوئی دولت کو پاکستان واپس لانے میں کامیاب ہو سکا اور نہ ہی لوٹنے والوں کو الٹا لٹکانے کے دعوے کو عملی جامہ پہنا سکا البتہ میں ان تمام افراد کے سامنے ہاتھ جوڑ کر گزارش کرتا ہوں کہ اپنی دولت کو حق حلال کا مال سمجھیں، بس اتنا کرم کریں کہ آئیں اور آکر تعمیراتی صنعت میں سرمایہ کاری کریں کوئی ان کی جانب بری نظر سے نہیں دیکھے گا۔
یہ وہ وزیر اعظم تھے جنہوں نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ملک کی دولت کو نہ تو لوٹنے والوں کو چھوڑیں گے اور نہ ہی ان کی دولت کو ان پیٹوں میں بھرا رہنے دیں گے۔ لوٹنے والے ملک کے اندر ہوں یا باہر، ان کی دولت ان کی جاگیروں میں مدفن ہو یا بیرونی ممالک کے بینکوں میں بھری ہوئی، وہ لوٹنے والوں کو لٹکا کر رہیں گے اور لوٹی ہوئی دولت کو بہر صورت ملک میں واپس لیکر آئیں گے۔ لیکن کل رات قوم کو یقینا اس وقت بڑی مایوسی ہوئی ہوگی جب انہوں نے عمران خان کا یہ معذرت خواہانہ خطاب سنا ہوگا۔ جسارت میں شائع ہونے والی شہ سرخی کے مطابق عمران خان کا کہنا تھا کہ ’’تعمیرات کے شعبے میں سرمایہ کاری کرنے والوں سے ذرائع آمدن نہیں پوچھا جائے گا۔ پاکستان کو اس مشکل وقت سے نکلنے کے لیے تعمیرات کی ضرورت ہے‘‘۔ پنجابی میں کہا جاتا ہے کہ ’’جتھے دی گھوتی اُتھے آن کھلوتی‘‘ سو مڑ مڑا کر ان کو بھی اسی کھوتی کے پیچھے ہی آکر کھڑا ہونا پڑا اور سارے وعدوں اور دعوں کی ہوا نکل کر رہ گئی۔
یہ بات طے ہے کہ ملک کی خاطر قدم قدم پر مشکل فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔ ویسے بھی پاکستان میں اب تک جتنی بھی حکومتیں آئی ہیں وہ سب کی سب اپنے اپنے دور میں مشکل سے مشکل فیصلے ہی کرتی نظر آئی ہیں لیکن ان کے تمام مشکل فیصلے اگر کسی کی زندگی کو مشکل سے مشکل تر بناتے رہے ہیں تو وہ غریبوں کی زندگی سوا کسی اور کی زندگی نہیں۔ اعلیٰ حکومتی عہدیدار، لٹیرے اور ’’طاقتور‘‘ طبقوں کے چہروں پر تو نور ہی نور برستا رہا۔ امید تھی کہ ملک کی لوٹی ہوئی دولت کی چمک دمک سے جو جو چہرے سرخ و سفید ہورہے ہیں، کنولا جائیں گے لیکن کل کی بیان کردہ منصوبہ بندی نے اچھی امید کی ساری شمعیں گل کر کے رکھ دیں۔
وزیر اعظم کا مذکورہ بیان کئی لحاظ سے وضاحتیں مانگتا ہے۔ خصوصاً تعمیراتی شعبے کو 30 ارب روپوں کی سبسڈی (زر تلافی) دینے کا اعلان۔ زرِ تلافی کا مطلب اس کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا کہ حکومت کوئی بھی شے خود مہنگے داموں خریدے اور عوام کو سستے داموں فروخت کرے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب کوئی گھر اب تک تعمیر ہی نہیں ہوا تو حکومت نے خرید کیسے لیا۔ عمران خان کا مزید فرمانا ہے کہ حکومت نے صنعتی شعبے کے لیے 330 ارب مختص کر دیے ہیں۔ یہ ایک خطیر رقم تو ضرور ہے لیکن اس میں وضاحت طلب بات یہ ہے کہ یہ 330 ارب روپے کس مد کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ کیا یہ رقم بھی بڑے ڈانوں (بلڈروں) کی جیب بھرنے کے لیے ہے، سستے گھر کے خواب خرید والوں کو قرض فراہم کرنے والوں کے لیے ہے یا جاتے جاتے کسی کی خواہش کی تکمیل کے لیے رکھے گئے ہیں۔ اگر یہ سمجھ لیا جائے یہ 330 ارب روپے ایک لاکھ گھر بنانے کے لیے ہیں تو اس حساب سے ایک گھر 33 لاکھ روپے کا پڑتا ہے۔ 5 اور 10 مرلے کے مکانوں کی بات تو بہت دور کی ہے، ڈھائی اور 3 مرلے والے مکانات کے اسٹرکچر تک ان پیسوں میں نہیں اٹھائے جا سکتے۔ اگر یہ سمجھ لیا جائے کہ یہ خطیر رقم ’’سستے‘‘ گھروں کا خواب دیکھنے والی آنکھوں والے کے لیے بطور قرض ہے تب کسی حد تک بات سمجھ میں آتی ہے لیکن ایک غریب یا کم آمدنی والا ملازم اگر 33 لاکھ روپے قرضے کی مد میں لے لے گا اور وہ بھی سود کی شرط کے ساتھ، تو کیا وہ اپنی زندگی میں اس رقم کو اتار پائے گا؟۔
پاکستان میں گزشتہ 72 برس سے غریبوں کی غربت دور کرنے کا کہہ کر ہی ساری منصوبہ سازی کی جاتی رہی لیکن غربت اور غریبوں کا اضافہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ ساری باتیں سوائے جھوٹ اور بہلاوا، اور کچھ بھی نہیں۔
ان ساری باتوں کا نچوڑ اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ عوام کو چہار جانب سے خوب کس کس کر نچوڑا جائے، غربت اور غریبی کو ختم کرنے کا نعرہ لگا کر غریبوں ہی کو ختم کر دیا جائے۔ مافیاؤں کے آگے گھٹنے ہی کیا ناک بھی ٹیک اور رگڑ دی جائے اور ملک کو ان ہی کے حوالے کر دیا جائے جن کو الٹا لٹکا کر، ان کے پیٹوں کو چاک کر کے لوٹی ہوئی دولت واپس لیکر آنی تھی۔ لہٰذا حکومت عمرانی نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ سب چور لٹیرے زمینیں اورجائدادیں خریدیں، مکانات بنائیں اور جو کچھ بھی اس ملک میں باقی رہ گیا ہے اسے بھی نچوڑ کر ملک سے باہر لے جائیں ان سے کسی بھی قسم کی کوئی پوچھ گچھ نہیں کی جائے گی۔