ورثہ ہی ورثے کو کوس رہا ہے

987

پاکستانی قوم کو جلد ہی وہ اعلان سننے کو مل گیا جو عموماً حکمران اپنے اقتدار کے چوتھے پانچویں سال میں دیتے ہیں تاکہ ناکامیوں کا ملبہ سابق حکمرانوں پر ڈال کر اگلے انتخابات میں کامیابی کی منصوبہ بندی کی جا سکے۔ چنانچہ عبدالحفیظ شیخ صاحب نے فرما دیا کہ ہمیں اقتصادی بحران ورثے میں ملا۔ لیکن اتفاق کی بات یہ ہے کہ حفیظ شیخ بھی اس حکومت کو ورثے میں ملے ہیں۔ یہ ورثہ بھی خوب ہے کہ یہی حفیظ شیخ صاحب 1990ء میں عالمی بینک کے ڈائریکٹر اکنامک تھے۔ یہی قیمتی ورثہ 2003ء سے 2006ء تک وفاقی وزیر برائے نجکاری و سرمایہ کاری تھا۔ یہ دور جنرل پرویز کا سب سے پہلے پاکستان والا تھا۔ اس سے قبل وہ 2000ء سے 2002ء تک سندھ میں وزیر خزانہ اور منصوبہ بندی رہے اور 2010ء سے 2013ء تک پھر وفاق میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے وزیر خزانہ تھے۔ یعنی پرویز مشرف اور پیپلز پارٹی کے لیے خدمات انجام دینے والے وزیر خزانہ نے فرمایا ہے کہ اقتصادی بحران ورثے میں ملا ہے۔ اگر وہ یہ بھی بتا دیتے کہ کون سے عرصے کا ورثہ ہے تو زیادہ آسانی ہو جاتی۔ ویسے انہیں یاد نہ ہو تو اپنے پروفائل کو خود پڑھ لیں جو بڑے فخر سے انہوں نے لگایا ہوا ہے کہ ان کے دور میں پاکستان میں پانچ ارب ڈالر کے نجکاری کے 34 سودے ہوئے۔ ان سودوں کے کیا اثرات ہوئے یہ معلوم کرنے کے لیے بھی حفیظ شیخ کو یادداشت پر زور دینے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ صرف ان 34 سودوں کے پانچ ارب ڈالر کا کھاتہ کھول لیا جائے تو سارا ورثہ نکل آئے گا۔ موجودہ دور کو بھی شامل کر لیں تو آنے والے دور میں کوئی وزیر خزانہ یا ممکن ہے یہی والے کسی اور پارٹی میں بیٹھے کہہ رہے ہوں گے کہ ہمیں اقتصادی بحران ورثے میں ملا ہے۔ نئے دور کا ورثہ یہ ہے کہ ڈالر کو مہنگا کرکے کہا جا رہا ہے کہ زرمبادلہ کے ذخائر صرف 9 ارب ڈالر رہ گئے تھے۔ ان لیگ نے ڈالر کی قدر کو مصنوعی طور پر کم رکھنے کے لیے زرمبادلہ جھونک دیا تھا۔ وزرا، سیاستدانوں اور عالمی بینک و آئی ایم ایف کے دانشوروں کی یادداشت ہمیشہ کمزور ہوتی ہے اس لیے وہ پچھلی بات کو بھول جاتے ہیں۔ لیکن افسوس تو عوام کی یادداشت پر ہے کہ وہ بار بار ایک ہی بات سنتے ہیں کبھی ایک ٹولے کو آزماتے ہیں کبھی دوسرے کو اور آجکل تمام ٹولوں کے تجربے کو بھگت رہے ہیں۔ ان کے دعوئوں اور وعدوں کو بھول جاتے ہیں۔ یہ بات جو حفیظ شیخ نے کہی ہے بالکل یہی بات جنرل پرویز کے جانے کے بعد جب زرداری حکومت آئی اور کچھ ہی دنوں میں حفیظ شیخ درآمد کیے گئے تو انہوں نے کہا کہ مشرف دور میں ڈالر کو مصنوعی طور پر مستحکم رکھا گیا تھا۔ زرمبادلہ کے ذخائر صرف 11 یا 12 ارب ڈالر رہ گئے تھے۔ عوام ذرا ذہنوں پر زور دیں آج حفیظ شیخ نے جو کہا ہے کہ ہم نے تباہ شدہ معیشت کو سنبھالنے کے لیے مشکل فیصلے کیے ہیں۔ یہی جملہ بے نظیر بھٹو نے کہا تھا کہ عوام کو کڑوا گھونٹ پینا پڑے گا۔ یہی بات اسحٰق ڈار کہا کرتے تھے کہ مشکل فیصلے کرنے پڑے ہیں عوام برداشت کریں۔ یہ کہانی کب ختم ہو گی۔ اس میں فوج کو بھی الزام دیا جاتا ہے لیکن عوام کیا چاہتے ہیں وہ تو کھل کر اپنی مرضی سامنے لائیں۔ جب تک ملک کے عوام اقتصادی اور معاشی بنیادوں پر انتخابات کریں گے ایسے ہی لوگ اقتدار میں آئیں گے۔ اگر عوام اپنی فلاح چاہتے ہیں تو جس مقصد کے لیے پاکستان بنا تھا اس مقصد کے لیے جدوجہد کرنے والوں کا ساتھ دیں اس مقصد کے لیے جدوجہد کریں۔ معاشی تنگی تو کسی بھی وقت آسکتی ہے لیکن جو کام ہمارا ہے ہم وہ تو کرتے رہیں۔ ملک میں اسلامی حکومت قائم کرنا بھی عوام یا سیاستدانوں پر فرض نہیں ہے بلکہ اس کے لیے جدوجہد سب پر فرض ہے۔ اگر عوام نے اپنا فرض نہیں پہچانا تو ایسے ہی ورثے ملتے رہیں گے۔ بات صرف ڈالر کی قدر بڑھنے کی نہیں ہے۔ برآمدات پر حملے، درآمدات میں اضافہ، پاکستان اسٹیل، پی آئی اے جیسے اداروں کی تباہی، چینی، آٹا مافیا وغیرہ کا تحفظ، دوہری شہریت والوں کا تحفظ۔ صرف دو بھائیوں کو لٹکانے کے لیے پوری قوم کو لٹکا دیا گیا۔ یہ سارے ورثے اگلوں کے لیے تیار ہو رہے ہیں۔ بھگت تو آج بھی لوگ رہے ہیں لیکن غلط معاشی فیصلوں کے اثرات عشروں تک بھگتنا ہوں گے۔