رسائل اور وسائل

366

رضی الاسلام ندوی

وراثت کی تقسیم کب کی جائے؟
سوال: ہمارے ایک عزیز کا انتقال ہوا۔ وہ اپنے پیچھے چار لڑکے، دو لڑکیاں اور بیوہ کو چھوڑ گئے ہیں۔ تین لڑکے اور ایک لڑکی بالغ ہیں، ایک لڑکا اور ایک لڑکی نابالغ ہیں۔ ان میں سے کسی کی ابھی شادی نہیں ہوئی ہے۔ وراثت کا مسئلہ درپیش ہے۔ اس سلسلے میں براہِ کرم درج ذیل سوالات کے جوابات مرحمت فرمائیں:
1۔ کیا کسی شخص کے انتقال کے فوراً بعد وراثت کی تقسیم کر دینی چاہیے، یا اسے کچھ مدت کے لیے ملتوی کیا جاسکتا ہے؟
2۔ کیا یہ طے کیا جا سکتا ہے کہ پہلے تمام بچوں کی شادیاں ہوجائیں، ان میں سب مل جل کر خرچ کریں، بعد میں وراثت تقسیم کی جائے؟
3۔ اگر تمام مستحقین وراثت کو مشترک رکھنا چاہتے ہیں تو کیا اس کی اجازت ہے؟ اگر نہیں تو کیا تقسیم عمل میں آنے کے بعد وہ پراپرٹی کو مشترک رکھ سکتے ہیں؟
جواب: وراثت کا تعلق کسی شخص کے انتقال سے ہے۔ جوں ہی وہ وفات پائے اس کی مملوکہ چیزیں شریعت کی بتائی ہوئی تفصیل کے مطابق اس کے قریبی رشتے داروں میں تقسیم ہوجانی چاہیں۔ اولاد میں سے کسی کے بالغ یا نابالغ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، بلکہ اگر کسی شخص کی وفات کے بعد اس کا بچہ پیدا ہو تو وہ بھی مستحقِ وراثت ہوگا۔ سوال میں مذکور تفصیل کے مطابق وراثت کی تقسیم اس طرح ہوگی : بیوہ کو آٹھواں حصہ ملے گا ، باقی کے دس حصے کیے جائیں گے۔ ایک ایک حصہ دونوں لڑکیوں میں سے ہر ایک کو اور دو دو حصے چاروں لڑکوں میں سے ہر ایک کو دیے جائیں گے۔ فی صد میں تقسیم اس طرح ہوگی : بیوی:12.5%، لڑکیاں: 17.5%، (ہر لڑکی کو8.75%) چار لڑکے 70%، (ہر لڑکے کو 17.5%)
جہاں تک ممکن ہو، وراثت کی تقسیم کسی شخص کے انتقال کے بعد جلد از جلد کر دی جانی چاہیے۔ اسے ملتوی رکھنے سے تنازعات اٹھنے کا اندیشہ رہتا ہے اور دوسرے مسائل بھی پیدا ہوسکتے ہیں۔ یہ چیز مناسب نہیں کہ اسے تمام بچوں کی شادی کے بعد تک کے لیے ٹالے رکھا جائے۔ اس لیے کہ شادی کے مصارف ہر موقع پر الگ الگ ہوں گے۔ اس کا امکان ہے کہ جس کا جو حصہ شریعت کی طرف سے مقرر کیا گیا ہے اس سے کم یا زیادہ ملے۔
وراثت کی تقسیم ہوجائے اور ہر حصے دار کو اس کا حق مل جائے، اس کے بعد ان میں سے ہر لڑکے اور لڑکی کی اپنی صوابدید پر ہوگا کہ وہ اپنی شادی میں اپنے حصے کی دولت میں سے کتنا خرچ کرے۔ اس موقع پر دوسرے بھائی بہنوں کے سامنے موقع رہے گا کہ وہ حسب حال اس کا تعاون کریں کہ یہ صلہ رحمی کا تقاضا ہے۔ البتہ ان میں سے جو لوگ چاہیں ، تقسیم ہو جانے کے بعد وراثت میں ملنے والے اپنے حصوں کو مشترک رکھ سکتے ہیں۔
یہ خیال درست نہیں ہے کہ کسی شخص کے انتقال کے فوراً بعد اس کی وراثت کی تقسیم کو سماج میں اچھی نظروں سے نہیں دیکھا جاتا، اس لیے اسے کچھ عرصے کے لیے ملتوی رکھنا چاہیے۔ سماج کے خوف سے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچنا چاہیے۔ قرآن مجید میں تقسیمِ وراثت کا حکم دیتے ہوئے ان لوگوں کو سخت وعید سنائی گئی ہے جو اس میں ٹال مٹول سے کام لیتے ہیں، یا پوری وراثت پر قبضہ کرکے دوسرے مستحقین کو محروم کر دیتے ہیں۔
٭…٭…٭
ایک سے زائد قربانی کرنا
سوال: بعض حضرات اپنے علاوہ اپنے بیوی بچوں، ماں باپ اور دیگر اعز ّہ کی طرف سے بھی قربانی کرتے ہیں۔ اس کے لیے وہ کئی چھوٹے جانور ذبح کرتے ہیں، یا بڑے جانوروں میں کئی حصے لیتے ہیں۔ بیوی اگر صاحب نصاب ہو تو کیا اس کا الگ سے قربانی کروانا ضروری ہے؟
جواب: ایک شخص اپنی طرف سے ایک جانور کی بھی قربانی کرسکتا ہے اور ایک سے زائد جانوروں کی بھی۔ اسی طرح وہ اپنے متعلقین کی جانب سے بھی قربانی کرسکتا ہے اور پورے گھر والوں کی طرف سے ایک جانور کی قربانی بھی کفایت کرسکتی ہے۔ احادیث میں ہر صورت کا بیان موجود ہے: انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہؐ نے دو مینڈھوں کی قربانی کی۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ آپؐ نے اپنے ہاتھوں سے انھیں ذبح کیا۔ (بخاری، مسلم)
ام المومنین عائشہ صدیقہؓ رسول اللہؐ کے ساتھ اپنے اور دیگر ازواج ِ مطہرات کے سفرِ حج کے احوال بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں کہ آپؐ نے اپنی ازواج کی طرف سے گایوں کی قربانی کی۔ (بخاری، مسلم) عائشہ صدیقہؓ ہی سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہؐ نے ایک مینڈھے کی قربانی کی۔ اسے ذبح کرتے وقت آپؐ نے یہ دعا پڑھی: ’’اے اللہ اسے قبول کرلے، محمد کی طرف سے، آلِ محمد کی طرف سے اور امت محمد کی طرف سے‘‘۔ (مسلم) دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے دو مینڈھوں کی قربانی کی۔ ایک محمد اور آل محمد کی طرف سے اور دوسرا امت ِ محمد کی طرف سے۔ (ابنِ ماجہ)
عطا بن یسار بیان کرتے ہیں کہ میں نے صحابیِ رسول ابو ایوب انصاریؓ سے دریافت کیا: عہد ِ رسول میں کس طرح قربانیاں کی جاتی تھیں؟ انھوں نے جواب دیا: اس زمانے میں آدمی اپنی طرف سے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے ایک بکری ذبح کرتا تھا۔ تمام لوگ خود کھاتے تھے اور دوسروں کو بھی کھلاتے تھے۔ بعد میں لوگوں میں فخر و مباہات کے طور پر زیادہ سے زیادہ جانوروں کی قربانی کا جذبہ پیدا ہوگیا اور ان کا ویسا حال ہوگیا جیسا تم دیکھ رہے ہو‘‘۔ (ترمذی)
ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قربانی کے معاملے کو آدمی کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ وہ حسبِ توفیق جتنے جانور چاہے قربان کرسکتا ہے۔ البتہ اس نیک عمل کو اخلاص کے ساتھ اور اجر وثواب کی امید میں انجام دینا چاہیے۔ فخر ومباہات کے جذبے اور ریا کاری کے شائبے سے بچنا چاہیے۔