سانحہ بلدیہ، انصاف اور سزا مل سکے گی؟

468

حبیب الرحمن
کسی شاعر نے کیا دل سوز بات کہی تھی کہ:
لے کے چٹکی میں نمک آنکھ میں بھر کر آنسو
اس پہ مچلے ہیں کہ ہم زخمِ جگر دیکھیں گے
ہر ایک دوماہ بعد سانحہ بلدیہ فیکٹری کے سوگواروں کے زخموں کو کریدنے کے علاوہ ہمارے اربابِ اختیار و اقتدار کے پاس شاید کوئی کام نہیں رہ گیا ہے۔ پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرونک، نہایت باقائدگی کے ساتھ سانحہ بلدیہ ٹاؤن کی کسی نہ کسی خبر کا ایکشن ری پلے چلاتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ ہر ماہ دو ماہ بعد اس جے آئی ٹی کا ذکر چھیڑ دیا جاتا ہے جس میں درج حروف بھی اب معدوم سے معدوم تر ہوتے چلے جا رہے ہیں اور جس کے اوراق ہر آنے والے وقت کے ساتھ خستہ سے خستہ تر ہونے لگے ہیں۔ جسارت میں اسی بلدیہ فیکٹری کی، جس میں 300 کے قریب زندہ انسانوں کو راکھ بنا کر رکھ دیا گیا تھا، جے آئی ٹی رپورٹ کا ایک مرتبہ پھر ذکر چھیڑا گیا ہے اور میں سوچ رہا ہوں کہ جب شائع ہونے والی خبر سوگواروں نے ایک مرتبہ پھر پڑھی ہو گی تو ان کے وہ سارے زخم پھر سے ہرے ہو گئے ہوں جن زخموں کی جلن اور چبھن کو وہ بھلا دینا چاہتے ہوںگے اور اپنے سارے معاملات اللہ پر چھوڑ کر صبر کا دامن تھام لینے کی کوشش میں مصروف ہوںگے۔
پاکستان ایک ایسا مشکل ملک بن کر رہ گیا ہے جس میں نہ تو سچ کے سچ ہونے کا پتا چلتا ہے اور نہ ہی جھوٹ کو جھوٹ مان لینے کو دل چاہتا ہے۔ جسارت میں سانحہ بلدیہ فیکٹری کے متعلق شائع ہونے والی خبر کچھ یوں ہے کہ ’’سانحہ منظم منصوبہ بندی کے تحت دہشت گردی کا واقعہ تھا، جس میں ایم کیو ایم تنظیمی کمیٹی کے سربراہ حماد صدیقی اور رحمن بھولا کا ہاتھ تھا۔ فیکٹری کو 20 کروڑ روپے بھتا نہ دینے پر آگ لگائی گئی‘‘۔ پبلک ہوجانے والی اس رپورٹ میں بھی تمام وہی باتیں سامنے آئی ہیں جو رپورٹ باقاعدہ پبلک نہ ہونے پر بھی سامنے آتی رہی ہیں لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن جن شخصیات کا ذکر اس رپورٹ میں ہے ان کا تعلق کون سی ایم کیو ایم سے تھا؟۔ فی زمانہ جتنے بھی ماضی کے ٹاگٹ کلرز یا سنگین جرائم میں ملوث افراد کو پکڑا جاتا ہے ان سب کا تعلق لندن سے جوڑ دیا جاتا ہے جبکہ اس وقت ایم کیو ایم کا ہر دھڑا (حقیقی کے سوا) صرف ایم کیو ایم کہلایا کرتا تھا۔ گویا وہ ایم کیو ایم پاکستان ہو، پی ایس پی ہو، فاروق ستار والی ہو یا عامر والی، یہ سب ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے تھے۔ ماضی کے کسی بھی سنگین جرم میں ملوث ایم کیو ایم کے مجرم کو صرف اور صرف لندن کے ساتھ جوڑ دینے سے موجودہ ایم کیو ایم کو اس سے علٰیحدہ سمجھنا میرے اپنے نزدیک سنگین غلطی ہوگی اس لیے کہ یہ تمام کے تمام ہر قسم کے جرم میں بالکل برابر کے شریک رہے ہیں۔ 1992 سے تاحال ایم کیو ایم پر جتنے بھی سنگین الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں ان سب کا دفاع موجودہ ایم کیو ایم کے رہنما ہوں یا جس کو اب لندن سے جوڑا جاتا ہے، نہایت مدلل انداز میں کرتے رہے ہیں اس لیے ماضی کے کسی ایک بھی ملزم کو کسی خاص گروہ کے ساتھ منسلک کر دینا خلاف انصاف ہی لگتا ہے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس رپورٹ کے پبلک ہونے سے قبل بھی سانحہ بلدیہ فیکٹری کے متعلق جو بھی پیش رفت ہوتی رہی ہے اس میں خلا فلا موجود رہا ہے اور مختلف اوقات میں یہ سانحہ مختلف رخ اختیار کرتا نظر آتا رہا ہے اور وہ مجرمان جن کا ذکر موجودہ شائع ہونے والی جے آئی ٹی میں کیا گیا ہے، وہ اکثر بری الذمہ قرار دیے جاتے ہوئے محسوس ہوئے ہیں۔ ایک الجھن ہمیشہ سے یہ بھی رہی ہے کہ اس قسم کی ہر تحقیقاتی رپورٹ کو ہر قسم کے میڈیا پر جس انداز میں پیش کیا جاتا رہا ہے وہ انداز بھی رپورٹ سے زیادہ عدالتی فیصلوں جیسا رہا ہے جبکہ ہر تحقیقاتی رپورٹ کا مقصد صرف اتنا ہوتا ہے کہ وہ عدالت کے روبرو پیش کی جائے جس کی روشنی میں عدالت قانون کے مطابق کسی حتمی نتیجے تک پہنچ سکے۔ جس واقعے کی رپورٹ مکمل ہونے میں برسوں صرف ہو جائیں اس کی حقانیت تک پہنچنے میں عدالت کو بھی کافی وقت لگ سکتا ہے۔
پبلک کی جانے والی اس رپورٹ میں کئی باتیں مزید وضاحت طلب ہیں۔ مثلاً رپورٹ میں کہا جا رہا ہے کہ ’’تحقیقات کے دوران اندرونی اور بیرونی طور پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی گئی، پولیس کی تفتیش میں نقائص کی سنگین خامیاں سامنے آئیں، پولیس دہشت گردی کے المناک سانحے کے اصل کرداروں کو بچاتی دکھائی دی، کیس کو نان پروفیشنل انداز میں ڈیل کیا گیا اور روز اول سے اس طرح چلایا گیا جس سے ملوث گروہ کو فائدہ ہو‘‘۔ رپورٹ میں درج یہ بات سارے معاملات کی از سرِ نو تحقیق کا جواز پیش کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ اگر عدالت نے پولیس کے پیش کردہ حقائق کی دوبارہ تحقیقات کا حکم دیدیا تو کیا برسوں بعد تمام حقائق کو اسی طرح جمع کیا جا سکے گا جس کو کئی برس قبل جمع کیا جا سکتا تھا۔
ان تمام باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ سانحہ بلدیہ فیکٹری کے سوگواروں کو انصاف اور اصل مجرموں کو کبھی سزائیں مل سکیں گی۔ یہی انجام پاکستان میں بیش تر جے آئی ٹیوں کا سامنے آتا رہا۔ اللہ سانحے میں ہلاک ہوجانے والوں کے لوحقین کو صبر جمیل عطا کرے (آمین)۔