لوگ نکلے جو غمِ نانِ شبی میں گھر سے

1186

’’ہماری روایات دم توڑ رہی ہیں‘‘۔
ایک بزرگ نے، جو خود بھی دم توڑا چاہتے تھے، اپنے سفید بالوں والے سرِ عزیز کو دائیں بائیں گھماتے ہوئے یہ روایتی رونا رویا۔
اس پر دوسرے بزرگ کا قصہ یاد آگیا۔
جی‘‘ کھیلتی ہوئی نئی نسل کو اس کارِ فضول میں مصروف دیکھ کر اُن بزرگ نے پہلے تو اپنے لہجے میں حیرت اور پُر اسراریت بھری پھر فرمایا:
’’صاحب! میں تو حیران ہوں کہ ہماری نئی نسل آگے چل کر کیا کرے گی؟‘‘
ایک شوخ و گستاخ لڑکے نے لمحے بھر کو ’’پب جی‘‘ سے نظریں ہٹائیں اور بڑی شوخی و گستاخی سے گویا ہوا:
’’چاچا ای کرنا کیا ہے؟ آگے چل کر نئی نسل بھی یہی کرے گی‘‘۔
بزرگ نے آنکھیں نکالیں اور ڈپٹ کر پوچھا:
’’یعنی آگے چل کر بھی ’پب جی‘ ہی کھیلتی رہے گی؟‘‘
’’ناں جی … ناں‘‘۔ لڑکے نے ’’پب جی‘‘ کی طرف سے نظریں ہٹائے بغیر جواب دیا:
’’جب آپ کی عمر کو پہنچے گی تو یہ نسل بھی حیران ہوا کرے گی کہ ہماری نئی نسل آگے چل کر کیا کرے گی؟ بزرگو! زمانہ بدل چکا ہوگا‘‘۔
صاحب! ہمیں تو لڑکے کی دانش پر بڑا رشک آیا۔ روایات ہر دور میں بدلتی رہی ہیں۔ مگر روایات بدلنے کا رونا، رونا ایک ایسی روایت ہے جو کسی نسل میں نہیں بدلی۔
روایات ہی کیا؟ وہ معاشرے بھی بدل جاتے ہیںکہ جن کی بدلی ہوئی روایات کا رونا … خفتگانِ خاک کا ایک پورا قبرستان … ابھی ٹک روتے روتے سوگیا ہے۔
سنا ہے جن معاشروں میں خاندانی منصوبہ بندی پر دھیان نہیں دیا جاتا، اُن معاشروں کی بے دھیانی سے فقط بیس پچیس برس میں پورا معاشرہ بدل جاتا ہے۔ ایک نسل کی جگہ دوسری نسل جوان ہو کر زمامِ کار سنبھال لیتی ہے۔ (پھر پہلی نسل آرام سے گھر بیٹھ کر دوسری نسل کی کمائی کھاتی رہتی ہے) یہ بھی سنا ہے کہ مہذب، متمدن اور محتاط مغرب کے بعض معقول معاشرے اب صرف بوڑھوں ہی کی اکثریت پر مشتمل رہ گئے ہیں۔ ان بزرگوں کو پالنے اور پوسنے کے لیے ’’بڈھے گھر‘‘ نامی ادارے بنانے پڑتے ہیں۔ ہمارے دوست پروفیسر ڈاکٹر رئیس احمد مغل تو ایلزبتھ لیاجن کے ایک تحقیقی مضمون کا ترجمہ بھی کر چکے ہیں۔ یہ ترجمہ ہمارے ملک کے ایک وقیع علمی جریدے میں شائع ہوا۔ ترجمہ شدہ مضمون کا عنوان تھا: ’’بے اولاد مغرب‘‘۔
آج اس عاجز نے، موجودہ ’’پب جی نسل‘‘ سے عاجز آکر، اپنے طائر خیال کو پچاس برس پیچھے پرواز کرنے پر مجبور کیا۔ مقصد یہ تھا کہ ذرا دونسل پیچھے کی روایات پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے۔ اس سے قبل کہ طائر خیال ہانپ ہانپ جائے، آپ کو بتاتے چلیں کہ اگر پچاس برس پہلے فوت ہونے والا کوئی ’’کراچوی‘‘ اپنی قبر سے اُٹھ کر اس شہر میں آدھمکے تو شہریوں کے ڈر کر بھاگنے سے پہلے وہ خود ہی ڈر کر بھاگ کھڑا ہوگا اور واپس جاکر اپنی قبر میں لیٹ رہے گا کہ… خدا نے کس شہر اندر ہمن کو لائے ڈالا ہے؟… خود ہمارے ساتھ ایسا ہو چکا ہے۔
ہوا یوں کہ ایک روز جب ہم قائداعظم انٹرنیشنل ائر پورٹ کے جناح ٹرمنل سے باہر نکلے توکیا دیکھتے ہیں کہ ممتاز کالم نگار جناب سلیم فاروقی اپنے سے بھی زیادہ ممتاز کار لیے انتظار میں کھڑے ہیں۔ ملتے ہی ہمارا سفری بیگ ہمارے کندھے سے اُتار کر احتیاطاً اپنی دونوں ٹانگوں کے درمیان رکھ لیا۔ یہ حفظ ماتقدم فرما چکے تب ہم سے معانقہ اور مصافحہ فرمایا۔ ہمیں یاد آگیا کہ پچھلی بار ایسے ہی موقع پر اسی جگہ جب اُنہوں نے یہی استقبالی حرکت کی تھی تو یہی بیگ اِسی طرح ہمارے کندھے پر لٹکا ہوا تھا جس نے بوقتِ معانقہ گھوم کر اُن کی پیٹھ پر ایک ایسا زوردار دھپ رسید کیا تھا کہ اُنہیں اب تک یا د رہا۔ خیر اِس بار نہ اُن کی کمر دوہری ہوئی نہ اُن کے منہ سے بلبلاتا ہوا … ’’ارے ارے، رے رے‘‘ … نکلا۔ الحمدللہ ہمارا استقبال کرکے وہ ہر طرح سے محفوظ و مامون رہے۔ یہ بات اتنی تفصیل سے ہم نے یوں بیان کی کہ ہمیں ان کی اس محتاط روی میں ’’مومنانہ شان‘‘ نظر آئی۔ جس شخص کو ہمہ وقت یہ خیال رہے کہ مومن ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈسا جاتا اُس شخص کو یہ اعزاز بھی حاصل ہوجاتا ہے کہ وہ ایک بیگ سے دوبار دھپ نہیں کھاتا۔ اپنی منفرد اور ممتاز کار میں بٹھاکر لے چلے تو پتا ہی نہیں چلا کہ … ’یہ کنارہ چلا کہ ناؤ چلی‘ … کراچی کے قدم قدم پر بنے ہوئے ’’فلائی اووروں‘‘ پر اُچھلتے اور ’’انڈرپاسوں‘‘ میں کودتے ہوئے بخیر و عافیت منزل مقصود تک جا پہنچے۔ برسوں بعد اپنے شہر پہنچنے والے غریب شہر کو پہلی نظر میں محسوس ہوا کہ گویا اب یہ شہر آسماں پوش عمارتوں اور زمین پوش یا شاہراہ پوش گاڑیوں کا شہر ہوگیا ہے۔ ’پہلی نظر‘ ان دونوں کے سوا کسی تیسری چیز پر پڑ ہی نہیں سکتی۔ ہاں اگر گاڑی کسی سگنل پر یا اس کے بغیر ہی کسی ’ٹریفک جام‘ پر رکی ہوئی ہو (کہ ہر تھوڑی دور بعد سارا ٹریفک جام ہوکر سستانے لگتا ہے) تو ایسے ہر مقام پر اب ہمیں ’تیسری مخلوق‘ ہاتھ پھیلائے نظر آتی ہے۔ ظاہر ہے کہ جب اہل کراچی دن رات اپنی گاڑیوں ہی میں بیٹھے اور سڑک ہی پر بسیرا کیے رہیں گے تو اس مخلوق کو یہ موقع کیسے میسر آسکے گا کہ ڈھول ڈھمکا لے کر ان شہریوں کے گھروں پر ’نومولود‘ کی مبارک باد دینے جاسکے۔
طائر خیال فوراً اُن فضاؤں میں پرواز کرنے لگا جن میں عمارتیں نیچی اور درخت اونچے ہوتے تھے۔ محلے ہر چند کہ غریب تھے، مگر کھلے کھلے تھے۔ شاید یہی وجہ ہو کہ ظرف بھی وسیع تھے اور دل بھی کشادہ تھے۔ ہر محلے کی محلے داری، کسی رشتے داری سے کم نہ تھی۔ محلے کا ہر بچہ اپنا بچہ اور ہر بزرگ گویا اپنے خاندان کا بزرگ تھا۔ میل جول بہت تھا۔ ملنے جلنے اور ایک دوسرے کے گھر جانے کا باقاعدہ اہتمام ہوتا تھا۔ ہر شخص، ہر شخص کے حالات سے واقف رہا کرتا تھا۔ بچے جن بڑوں کے سامنے بڑھ کر جوان ہوتے تھے اُن بزرگوں کے آگے نگاہ نیچی رہتی اور آنکھ شرماتی تھی۔ ایک تہذیب تھی، ایک تمدن تھا، ایک معاشرت تھی جو کراچی کی پہچان تھی۔ اب وہ خواہ پیر الٰہی بخش کالونی ہو، لیاقت آباد ہو، سعود آباد ہو، شاہ فیصل کالونی ہو (اُس وقت کی ڈرگ کالونی)، گولیمار ہو یا ناظم آباد۔ ان تمام بستیوں میں محلے داریاں پائی جاتی تھیں جو کسی طرح بھی رشتے داریوں سے کم نہ تھیں۔ یہ محلّے شعر و ادب، اعلیٰ اخلاقی اقدار اور شرفِ انسانی کی شان دار روایات کے گہوارے تھے۔ ان میں غریب طبقے، متوسط طبقے اور دولت مند طبقے کے لوگ باہم گھل مل کر رہتے تھے۔ سب کا معیار زندگی تقریباً یکساں تھا۔ کوئی کسی کو حقارت سے دیکھتا تھا نہ حسرت سے۔
پھر یوں ہوا کہ … جُل دوبئی، مُج کمائیاں … کا ایک نعرۂ مستانہ بلند ہوا اور سب کے سب اس کوہِ ندا کی طرف دوڑ پڑے۔ ہر بستی کے ہر چوتھے پانچویں گھر سے کوئی نہ کوئی خلیج یا مشرقِ وسطیٰ کے ممالک میں جا ملازم ہوا۔ لوگ پیٹرو ڈالر کی کمائیاں لے لے کر آئے تو یہی غریب بستیاں جنہوں نے انہیں غربت میں چھت فراہم کی تھیں انہیں بری لگنے لگیں۔ ترکِ مکانی اور نقلِ مکانی کرکر کے لوگ ’’پوش‘‘ یا خوش پوش بستیوں کی طرف منتقل ہوتے چلے گئے۔ محلے اُجڑ گئے۔ تہذیبیں بکھر گئیں۔ تمدن منتشر ہوتا چلا گیا۔ نئی بستیوں میں نئی نئی دولت نے جو گُل کھلائے وہ آخر سب کو نظر آئے۔ جو لوگ کسی ملک نہ جا سکے وہ یہیں رہ کر دولت کی اس دوڑ میں شریک ہو گئے۔ سب کے سب ہی ’’مصروف مکھی‘‘ بن گئے۔ پھر کسی کے پاس… رہا نہ وقت ملاقاتِ دوستاں کے لیے … وفائے عہد محبت کے امتحاں کے لیے … پرانے محلّوں میں نئے لوگ آگئے۔ نئی روایات پڑ گئیں۔ بے رُخی اور لاتعلقی کی نئی روایات۔ آشنا نا آشنا سب ہی برابر ہو گئے۔ مزید ترقی ہوئی تو دولت مند بن جانے والوں کی اولادوں نے مشرق و مغرب کے اُن ممالک کا رُخ کیا جن کا زرِ مبادلہ ہمارے روپے سے کہیں زیادہ قیمتی تھا۔ تو صاحبو! اب یہ جو … دِوا دَو ہر طرف بھاگڑ مچی ہے … اس نے بہت سے انسانی المیوں کو جنم دیا ہے۔ روپے پیسے اور مال و دلت کی سب سے نمایاں خصلت یہ ہوتی ہے کہ یہ کسی کے نہیں ہوتے۔ جو لوگ روپے پیسے اور مال و دولت سے محبت کرنے لگتے ہیں، یہی خصلت دھیرے دھیرے اُن میں بھی سرایت کر جاتی ہے۔ کیسی کیسی درد ناک داستانیں ہیں۔ کوئی سنانے والا سنا سکتا ہے نہ کوئی سننے والا سن سکتا ہے۔ روایات، تہذیب، محلے داریاں اور شتے داریاں ہی نہیں، خاندانوں کے خاندان ختم ہو گئے۔ الا ماشاء اللہ:
لوگ نکلے جو غمِ نانِ شبی میں گھر سے
ایسے بکھرے کہ قبیلوں کے قبیلے نہ رہے