عدالتی نظام کی اصلاح ضروری ہے

616

عدالت عظمیٰ نے بجا طور پر سوال اُٹھایا ہے کہ نیب عدالتیں اور قانون کس کام کے ہیں۔ نیب میں مقدمات درج ہورہے ہیں، فیصلے نہیں ہورہے، یہی ہونا ہے تو کیوں نہ نیب اور احتساب عدالتیں بند کردیں، چیف جسٹس جناب جسٹس گلزار احمد نے حکم دیا ہے کہ قانون کے مطابق فیصلہ 30 دن میں ہونا چاہیے، موجودہ رفتار سے زیر التوا 1226 ریفرنس نمٹانے میں ایک صدی لگے گی۔ عدالت نے ریمارکس دیے ہیں کہ نیب بنانے کا مقصد فوت ہوگیا ہے۔ عدالت عظمیٰ کے سوالات بجا ہیں لیکن اس قسم کے سوالات پاکستان کے عدالتی نظام کے بارے میں بھی کیے جاتے ہیں۔ جس میں 30 برس مقدمات قائم رہتے ہیں مقدمات چلتے رہتے ہیں، پیشیاں ہوتی رہتی ہیں، مدعی اور ملزم سب فوت ہوجاتے ہیں ان کی تو قیامت ہو ہی جاتی ہے۔ صدی لگے یا نصف صدی انصاف میں تاخیر بہرحال انصاف کی موت ہے۔ یہ تاخیر نیب کی طرف سے ہو یا عام عدالتوں سے۔ بہرحال اس وقت چیف جسٹس نے نیب کے نظام پر جو سوالات اٹھائے ہیں وہ بجا ہیں انہوں نے اضافی ججز تعینات کرنے اور مزید عدالتیں قائم کرنے کا بھی حکم دیا ہے لیکن اگر نیب کے قوانین اور اس کے قیام سے اب تک کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو واقعی صورت حال بہت خراب نکلے گی۔ گزشتہ حکومت مسلم لیگ (ن) کی تھی اس دور میں بھی نیب کے سیاسی استعمال کی شکایات سامنے آتی تھیں لیکن موجودہ پی ٹی آئی حکومت تو ایسا لگتا ہے کہ نیب کے ساتھ مل کر اپوزیشن کا احتساب کرنے میں مصروف ہے۔ ادارہ بُری طرح بدنام ہوچکا ہے۔ خود چیف جسٹس نے کہا کہ نیب قوانین بنانے کا مقصد فوت ہوگیا۔ اگر اس کا مقصد فوت ہوگیا ہے تو اس ادارے کو ختم کردیا جائے۔ یہ درست ہے کہ عدالت عظمیٰ اور عالیہ پر بھی بوجھ بڑھ جائے گا لیکن جس طرح نیب کو مقدمات نمٹانے کے لیے 30 دن کی مہلت کی بات کی گئی ہے اسی طرح عام عدالتوں کے مقدمات کے فیصلوں کی بھی کوئی نہ کوئی مدت ہونی چاہیے۔ اگر جائدار اور قتل کے مقدمات 30 سال تک چلیں اور بے قصور آدمی کو سزائے موت کے بعد بے قصور قرار دیا جائے تو پھر کیا عام عدالتیں بھی بند کردی جائیں۔ ظاہر ہے ادارے بند کرنا مسائل کا کوئی حل نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ احتساب عدالتوں اور احتساب بیورو کے بھی احتساب کی ضرورت ہے۔ عام عدلیہ کے ججز پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ بات برسہا برس سے کہی جارہی ہے کہ اس طرز پر عدالتوں کا نظام تشکیل دیا جائے کہ جس روز مقدمہ کسی جج کے پاس آئے اسی روز سے گنتی شروع کردی جائے۔ اگر تاخیر ہورہی ہو تو متعلقہ عدالت کا سربراہ اس جج کو طلب کرکے استفسار کرسکتا ہے کہ تاخیر کا سبب کیا ہے۔ اس سبب یا مسئلے کو حل کرکے جلد فیصلہ کرنے میں مدد دی جائے۔ عدالت عظمیٰ کے سربراہ خوب جانتے ہوں گے کہ اسلامی تاریخ میں قاضی کس طرح فیصلے کرتے تھے۔ دعویٰ، الزام، مدعاعلیہ اور تمام متعلقین کو طلب کرکے گواہیاں ہوتی تھیں۔ بسا اوقات تو چند لمحوں میں فیصلے ہوتے تھے اور جس کے خلاف فیصلہ ہوتا تھا وہ بھی تسلیم کرکے جاتا تھا۔ آج کیا وجہ ہے کہ بڑے بڑے مقدمات لٹکے ہوئے ہیں، اگر کراچی کے بلدیہ ٹائون سانحے کو سامنے رکھا جائے تو 30 دن تو بہت ہی کم نظر آئیں گے۔ دس برس ہونے کو ہیں سانحہ بلدیہ ٹائون کا مقدمہ تو احتساب عدالت میں نہیں ہے۔ دیگر مقدمات جن کا احتساب عدالت سے تعلق نہیں ہے وہ بھی تو برسہا برس سے لٹک رہے ہیں۔ بہرحال چیف جسٹس نے نوٹس لے لیا تو نیب اور عدالتوں کو مقدمات کے فیصلے جلد کرنے کا پابند بنائیں اور نیب اور عدلیہ کا بھی اس اعتبار سے احتساب ضروری ہے کہ وہاں تاخیر کیوں ہوتی ہے۔ عدالتی نظام میں کیا سقم ہے اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ان خرابیوں کو دور کیا جائے اور عدالتی نظام بہتر بنایا جائے۔ چیف جسٹس صاحب اگر اپنے عدالتی نظام پر خصوصی توجہ دیں تو نیب جیسی عدالت کی ضرورت بھی نہ رہے۔ جتنے ادارے بنائیں گے مسائل بڑھتے جائیں گے۔ جو ادارے ہیں ان کو ٹھیک کیا جائے ورنہ کوئی ردعمل ہوا تو بے سمت ہو گا اور بڑا نقصان ہوگا۔