آیا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کردیا گیا، ترک میڈیا

1738

استنبول: ترک میڈیا اور حکومت کا کہنا ہے کہ 1935ء میں کمال اتاترک کابینہ کے’آیا صوفیا’ کو میوزیم میں تبدیل کرنے کا فیصلہ منسوخ دیا گیا ہے جبکہ اسے دوبارہ مسجد میں تبدیل کردیا ہے۔

ترک کونسل اسٹیٹ کے نمائندے نعمان کرتولمس  نے سماجی رابطے کی سائٹ ٹوئٹر پر پیغام جاری کرتے ہوئے  کہا کہ ‘ترکی کی قومی خودمختاری کا معاملہ اور آیا صوفیہ کی حیثیت کے بارے میں فیصلہ کرنے کا واحد اختیار صرف ترکی کا ہے،ہمیں اپنے معاملات میں کسی کی سفارش کی ضرورت نہیں ہے’۔

قبل ازیں  گزشتہ ہفتے ترک سپریم کورٹ نےاعلان کیا تھا کہ آیا صوفیہ کومسجد میں تبدیل کیا جائے گا یا نہیں، اس بارے میں 15 دن کے اندر فیصلہ کیا جائےگا۔

آیا صوفیہ کی تاریخ :

آیا صوفیہ بازنطینی بادشاہ جسٹنیئن اول کے دور میں بنائی گئی تھی اور تقریباً 1 ہزار سال تک یہ دنیا کا سب سے بڑا گرجا گھرتھی تاہم  جب سلطنتِ عثمانیہ نے1453ء میں اس شہر کو فتح کیا تو اسے ایک مسجد بنادیا گیا لیکن خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے کے بعد  1930 کی دہائی میں اسے جمہوری ترکی میں میوزیم میں تبدیل کردیا گیا تھا۔

آیاصوفیہ ترکی کےشہر استنبول میں واقع ہے اور ترکی اس ثقافتی ورثے کو دنیا کی عظیم ترین عمارتوں میں شمار کیا جاتا ہے،‏ لاطینی زبان میں آیا صوفیہ کو Sancta Sophia اور ترک زبان میں Ayasofya  کہتے ہیں جبکہ انگریزی میں ایسے Saint Sophia کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ۔

چوتھی صدی عیسوی کے دوران یہاں تعمیر ہونے والے گرجے کے کوئی آثار اب موجود نہیں، پہلےگرجے کی تباہی کے بعدقسطنطین اول کے بیٹے قسطنطیس ثانی نے اسے تعمیرکیا تاہم 532ء میں یہ گرجا بھی فسادات و ہنگاموں کی نذر ہوا،  اسے جسٹینین اول نے دوبارہ تعمیر کرایا اور 27 دسمبر 537ء کو یہ مکمل ہوا۔

آیاصوفیہ متعدد بار زلزلوں کا شکار ہوا جس میں 558ء میں اس کا گنبد گرگیا اور 563ء میں اس کی جگہ دوبارہ لگایا جانے والا گنبد بھی تباہ ہوگیا، 989ء کے زلزلے میں بھی اسے نقصان پہنچا۔1453 ء میں قسطنطنیہ کی عثمانی سلطنت میں شمولیت کے بعد آیاصوفیہ کو ایک مسجد بنادیا گیا اور اس کی یہ حیثیت 1935ء تک برقرار رہی۔

Hagia Sophia, 'The Holy Wisdom', a basilica, mosque or museum ...

آیاصوفیہ بازنطینی طرز تعمیر کا ایک شاہکار تھا جس سے عثمانی طرز تعمیر نے جنم لیا،  عثمانیوں کی قائم کردہ دیگر مساجد شہزادہ مسجد، سلیمان مسجد اور رستم پاشا مسجد آیاصوفیہ کے طرز تعمیر سے متاثر ہیں۔

عثمانی دور میں مسجد میں کئی تعمیراتی کام کیے گئے جن میں سب سے معروف 16 ویں صدی کے مشہور ماہر تعمیرات معمار سنان پاشا کی تعمیر ہےجس میں نئے میناروں کی تنصیب بھی شامل تھے جو آج تک قائم ہیں۔ 19 ویں صدی میں مسجد میں منبر تعمیر اور وسط میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور چاروں خلفائے راشدین کے ناموں کی تختیاں نصب کی گئیں۔اس کے خوبصورت گنبد کا قطر 31 میٹر (102 فٹ) ہے اور یہ 56 میٹر بلند ہے۔

خلافتِ عثمانیہ کے سقوط کے بعد جب ترکی سیکولر راہ پر مصطفٰی کمال اتاترک کی سربراہی میں گامزن ہوا تو اس تاریخی مسجد کو 1931 میں بند کردیا گیا اور 4 سال کے عرصے کے بعد 1935 میں اسے دوبارہ کھولا گیا لیکن ایک عجائب گھر کے طور پر۔آیا صوفیا 2014 عیسوی کے اعداد و شمار کے مطابق ترکی میں دوسرا سب سے زیادہ دیکھا جانے والا میوزیم ہے۔یہاں لوگوں کی سالانہ آمدورفت تقریباً 3.3 ملین ریکارڈ کی گئی ہے۔1616 عیسوی میں سلطان احمد شاہ مسجد (بلیو مسجد) بننے تک آیا صوفیا مسجد کو استنبول کی مرکزی مسجد کی حیثیت حاصل تھی، آج بھی اس پر شکوہ عمارت کی وہی خوبصورتی برقرار ہےجو مسلمانوں کے شاندار ماضی کی یاد دلاتی ہے۔